کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 716
اس کے بعد امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے اس شدت پسند جماعت کے متعلق اپنی عادلانہ اور حکیمانہ سیاست کا اعلان کرتے ہوئے کہا: جب تک تم ہمارے ساتھ ہو ہم پر تمھارے تین حق ہیں :
٭ ہم تمھیں اپنی مساجد میں نماز پڑھنے سے نہیں روکیں گے تاوقتیکہ تم ان میں اللہ کا ذکر کرتے رہو۔
٭ ہم تمھیں مال غنیمت حاصل کرنے سے منع نہیں کریں گے تاوقتیکہ ہمارے ساتھ مل کر لڑتے رہو۔
٭ ہم تم سے اس وقت تک نہیں لڑیں گے جب تک تم ہم سے لڑائی شروع نہ کردو۔[1]
اس طرح امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے انھیں مذکورہ تین حقوق عطا کیے تاوقتیکہ وہ خلیفہ سے قتال نہ کریں ، یا عام مسلمانوں کے خلاف خروج نہ کریں ، اس کے ساتھ ساتھ اسلامی عقیدہ کے دائرہ میں انھیں ان کے مخصوص افکار و نظریات پر باقی رہنے دیا، انھیں اسلام سے خارج نہ گردانا بلکہ اختلاف کرنے کا حق دیا، لیکن ایسا نہیں کہ یہ اختلاف گروہ بندی اور ہتھیار اٹھانے کا سبب ہو۔ نہ ہی آپ نے انھیں پس زنداں دھکیلا، نہ ان پر جاسوس مسلط کیے اور نہ ہی ان کی آزادیوں کو پابند سلاسل کیا، بلکہ ان کے اور ان کے دھوکے میں آئے ہوئے لوگوں کے سامنے اتمام حجت اور اظہار حق کے لیے حرص کا مظاہرہ کیا، آپ نے اپنے موذن کو حکم دیا کہ قراء (حفاظ) کو اکٹھا کرو، صرف حافظ قرآن ہی میرے پاس آئیں ، چنانچہ اس قدر حفاظ قرآن جمع ہوگئے کہ منز ل ان سے کھچا کچ بھر گئی، آپ نے قرآن منگوایا اور اسی کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہتے جاتے: اے قرآن! لوگوں کو بتا دے، آپ کو ایسا کرتے دیکھ کر لوگ کہنے لگے: اے امیر المومنین! آپ اس سے کیا کہہ رہے ہیں ، یہ تو ورق میں لکھی ہوئی چند تحریریں ہیں ، ہم اس کا جتنا حصہ رکھتے ہیں اسے پڑھ سکتے ہیں ، آپ کا مقصد کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تمھارے یہ ساتھی جو الگ ہوگئے ہیں کہتے ہیں کہ ہمارے اور تمھارے درمیان اللہ کی کتاب ’’حکم‘‘ ہے۔ (اس لیے میں قرآن سے جواب دینے کو کہہ رہا ہوں ) جب اللہ تعالیٰ بیوی اور خاوند کے بارے میں اپنی کتاب میں کہتا ہے:
﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّـهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا ﴾ (النساء : ۳۵)
’’اور اگر ان دونوں کے درمیان مخالفت سے ڈرو تو ایک منصف مرد کے گھر والوں سے اور ایک منصف عورت کے گھر والوں سے مقرر کرو، اگر وہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔ ‘‘
تو امت محمدیہ کا خون اور تقدس ایک مرد اور عورت کے بالمقابل کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کو مجھ پر اعتراض ہے کہ میں نے معاویہ سے معاہدہ کرلیا اور ’’امیرالمومنین‘‘ نہ لکھ کر فقط علی بن ابی طالب لکھنے پر راضی ہوگیا۔
[1] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍۳۲۷-۳۲۸) الأم ؍ الشافعی (۴؍۱۳۶)، تاریخ الطبری (۵؍۶۸۸) بسند ضعیف از وجہ انقطاع۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سند کے دیگر شواہد اور متابعات موجود ہیں ۔ (إرواء الغلیل ۸؍۱۱۷)