کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 715
بتاؤ کیا میں اس آخری شکایت سے بھی نکل گیا، انھوں نے کہا: ہاں ۔ پھر ان میں سے دو ہزار لوگ دوبارہ علی رضی اللہ عنہ کی جماعت میں واپس لوٹ آئے اور بقیہ نے انکار کردیا اور اپنی گمراہی پر انھوں نے قتال کیا اور مہاجرین و انصار نے انھیں قتل کیا۔[1] بقیہ خوارج سے مناظرہ کے لیے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کا نکلنا اور کوفہ پہنچنے کے بعد ان کے ساتھ برتاؤ کی نوعیت، پھر خوارج کا دوبارہ خروج خوارج سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مناظرہ اور اس کے نتیجہ میں دو ہزار خوارج کی واپسی کے بعد امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ خود خوارج کے پاس گئے اور ان سے گفتگو کی، جس کے نتیجے میں یہ لوگ کوفہ واپس آگئے۔ لیکن یہ اتفاق زیادہ دیر تک باقی نہ رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دوران گفتگو انھوں نے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ سمجھ لیا کہ آپ تحکیم سے رجوع کرچکے ہیں اور اپنی غلطی سے توبہ کرلی ہے، حالانکہ یہ سب ان کی خام خیالی تھی اور اسی خام خیالی کو وہ لوگوں میں پھیلا رہے تھے، چنانچہ اشعث بن قیس الکندی، امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگ آپس میں باتیں کر رہے ہیں کہ آپ نے ان کی وجہ سے کفر سے رجوع کرلیا ہے تو علی رضی اللہ عنہ نے بروز جمعہ خطبہ دیا، اور حمد و صلاۃ کے بعد خوارج کی ریشہ دوانیوں ، لوگوں سے ان کے اختلاف اور اساسِ اختلاف کا ذکر کیا۔[2] ایک روایت میں ہے کہ اسی دوران ایک آدمی آیا اور کہا: ’’لَا حُکْمَ إِلَّا لِلّٰہِ‘‘ پھر دوسرا اٹھا اور کہنے لگا: ’’لَا حُکْمَ إِلَّا لِلّٰہِ‘‘ پھر مسجد کے مختلف حصوں میں یہ لوگ ’’لَا حُکْمَ إِلَّا لِلّٰہِ‘‘ کا نعرہ لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے انھیں بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہاں ٹھیک ہے: ’’لَا حُکْمَ إِلَّا لِلّٰہِ‘‘ یہ کلمہ برحق ہے، اس سے باطل کا ارادہ ہے۔ میں تمھارے بارے میں اللہ کے حکم کا منتظر ہوں ۔ اس طرح آپ منبر ہی سے اشارہ کے ذریعے سے انھیں بیٹھ جانے کو کہتے رہے، تب تک ایک آدمی اپنے دونوں کانوں میں انگلیاں ڈالے ہوئے اٹھا اور قرآن کی یہ آیت پڑھی: ﴿ النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ﴾ (الزمر:۶۵) ’’بلاشبہ اگر تو نے شریک ٹھہرایا تو یقینا تیرا عمل ضرور ضائع ہو جائے گا اور تو ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہو جائے گا۔‘‘ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب اس آیت کریمہ سے دیا: ﴿ النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ﴾ (الروم:۶۰) ’’پس صبر کر، یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے اور وہ لوگ تجھے ہرگز ہلکا نہ کر دیں جو یقین نہیں رکھتے۔‘‘
[1] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍۳۱۲-۳۱۳) شیخ البانیؒ نے اس کی تصحیح کی ہے۔ إرواء الغلیل ۸؍۱۱۸۔ [2] مرویات أبی مخنف فی تاریخ الطبری ص ۴۵۲۔