کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 710
سے ان کے خلاف خروج (بغاوت) کیا تھا، یہ لوگ خوارج کے علاوہ دیگر القاب و اسماء سے بھی جانے پہچانے جاتے ہیں مثلاً ’’حروریہ‘‘،[1] ’’شراۃ‘‘،[2] ’’المارقہ‘‘ یا ’’مُحَکِّمَہ‘‘[3] وغیرہ۔ واضح رہے کہ یہ لوگ ’’مارقہ‘‘ کے علاوہ بقیہ مذکورہ القاب کو اپنے حق میں تسلیم بھی کرتے ہیں ۔ البتہ مارقہ کو اس لیے نہیں مانتے کہ انھیں حدیث میں ((مَارِقَۃٌ مِّنَ الدِّیْنِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ)) [4] یعنی جس طرح تیر جانور سے نکل جاتا ہے ایسے ہی انھیں دین سے نکل جانے والا کہا گیا ہے۔ خوارج کی مذمت میں وارد شدہ احادیث: خوارج کی مذمت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث ثابت ہیں ۔ ان میں خوارج کے ایسے گھناؤنے اور قابل نفریں اوصاف کا تذکرہ ہے کہ جن کی وجہ سے وہ بے حد گھٹیا اور خبیث ترین مقام کے مستحق ٹھہرتے ہیں ، چنانچہ یہاں چند احادیث تحریر کی جاتی ہیں جن میں ان کی مذمت کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے۔ ٭ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اور آپ کچھ تقسیم کر رہے تھے، اتنے میں بنوتمیم کا ایک آدمی ذو الخویصرہ آپہنچا اور کہا کہ اللہ کے رسول! عدل کرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَیْلَکَ وَ مَنْ یَّعْدِلُ إِذَا لَمْ اَعْدِلُ، قَدْ خِبْتُ وَ خَسِرْتُ إِنَّ لَّمْ اَعْدِلْ۔)) ’’بربادی ہو تیری، جب میں عدل نہ کروں گا تو کون کرے گا میں تو ہلاک ہوگیا اور بدنصیب ٹھہرا اگر میں نے عدل نہ کیا۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول مجھے اجازت دیجیے کہ اس کی گردن مار دوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((دَعْہٗ فَإِنَّ لَہٗ أَصْحَابًا یَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلٰوتَہٗ مَعَ صَلٰوتِہِمْ وَ صَیَامَہٗ مَعَ صِیَامِہِمْ یَقْرَؤُوْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الْإِسْلَامِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمْیَۃِ۔)) ’’جانے دو، کیونکہ اس کے ساتھی ہوں گے کہ تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے آگے اور اپنے روزے کو ان کے روزے کے آگے حقیر سمجھو گے، وہ قرآن پڑھیں گے، لیکن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا، وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے کہ جیسے تیر کمان سے۔‘‘ تیر انداز اس کے پیکان کو دیکھتا ہے تو اس میں کچھ بھرا ہوا نہیں پاتا، پیکان کی جڑ کو دیکھتا ہے تو اس میں بھی کچھ نہیں پھر اس کی لکڑی کو دیکھتا ہے تو اس میں کچھ نہیں ، پھر اس کے پَر کو دیکھتا ہے تو اس میں بھی کچھ نہیں ، اور تیر اس شکار کی بیٹ اور خون سے نکل چکا ہوتا ہے۔ اس گروہ کی نشانی یہ ہے کہ اس میں ایک کالا آدمی ہوگا، اس کا ایک بازو عورت کی پستان
[1] اس کی وجہ تسمیہ ہے کہ الگ ہونے کے بعد یہ لوگ سب سے پہلے مقام ’’حروراء‘‘ میں اکٹھا ہوئے تھے۔ [2] ’’شراۃ‘‘ کے معنی سودا کرلینے والے، چنانچہ یہ لوگ اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے اپنی جانوں کا سودا کرلیا ہے۔ [3] اس کی وجہ تسمیہ ہے کہ یہ تحکیم کے منکر اور ’’لَا حُکْمَ إِلَّا لِلّٰہِ‘‘ کے نعرے باز تھے۔ [4] مقالات الإسلامیین ۱؍۲۰۷۔