کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 71
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((من انفق زوجین من شیٔ من الاشیاء فی سبیل اللّٰہ دعی من ابواب الجنۃ: یا عبداللّٰہ ہذا خیر، فمن کان من اہل الصلاۃ دعی من باب الصلاۃ، ومن کان من اہل الجہاد دعی من باب الجہاد ، ومن کان من اہل الصیام دعی من باب الریان ، ومن کان من اہل الصدقۃ دعی من باب الصدقۃ۔))
’’جس شخص نے اللہ کی راہ میں کسی چیز کے جوڑے خرچ کیے اس کو جنت کے دروازوں سے پکارا جائے گا، جو نمازیوں میں سے ہوگا اس کو باب الصلوٰۃ سے، جو مجاہدین میں سے ہوگا اس کو باب الجہاد سے، جو روزہ داروں میں سے ہوگا اس کو باب الریان سے، جو زکوٰۃ و صدقات ادا کرنے والوں میں سے ہوگا اس کو باب الصدقہ سے پکارا جائے گا۔‘‘
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! جو ان سب دروازوں سے پکارا جائے گا اسے پھر کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن کیا کوئی ایسا ہوگا جسے تمام دروازوں سے پکارا جائے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((نعم! وارجو ان تکون منہم یا ابابکر۔))[1]
’’ہاں ، اے ابوبکر! مجھے امید ہے کہ تم انھی میں سے ہو گے۔‘‘
۲۔ آپ کی دعا وشدتِ تضرع:
دعا بہت بڑا دروازہ ہے۔ جب یہ بندے کے لیے کھول دیا جاتا ہے تو خیر وبرکت کے دہانے بندے کے لیے کھل جاتے ہیں ، اسی لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ تعلق باللہ اور کثرت دعا کے انتہائی حریص تھے۔ اسی طرح دعا، اعداء پر نصرت وفتح کے قوی ترین اور عظیم اسباب وعوامل میں سے ہے۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کو لازم پکڑا اور انتہائی قریب سے دیکھا کہ کس طرح آپ اللہ تعالیٰ سے استغاثہ کرتے ہیں اور اس سے نصرت و مدد طلب کرتے ہیں ۔ آپ اس عبادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھنے کے بڑے حریص تھے۔ آپ اس کا اہتمام کرتے تھے کہ دعا وتسبیح کے الفاظ وصیغے وہی استعمال کریں جن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم فرماتے ہیں ، اور وہ آپ کو پسند ہیں ، کیونکہ دعا، تسبیح وذکر اور درود وصلاۃ سے
متعلق ماثور الفاظ اور صیغوں پر مسلمان دوسرے صیغوں اور الفاظ کو ترجیح نہیں دے سکتا، خواہ بظاہر یہ الفاظ و معانی میں کتنا ہی حسین کیوں نہ معلوم ہوں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی خیر کے معلم اور صراط مستقیم کی طرف ہدایت دینے والے ہیں ، آپ افضل واکمل کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں ۔[2]
[1] بخاری: ۲۶۶۶۔
[2] ابوبکر الصدیق: علی الطنطاوی ۲۰۷۔