کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 707
سنت نبی کے مطابق وہ دونوں جو بھی فیصلہ کریں گے انھیں خوشی خوشی منطور ہوگا، اسے توڑنے یا کسی دوسرے طرف فیصلہ لے جانے کا انھیں حق نہیں ہوگا۔ ۷۔ حکمین کو ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا پورا اطمینان دلایا جاتا ہے، وہ حق سے نہ ہٹیں ، کوئی خوش ہو یا ناراض، کتاب اللہ کے مطابق ان کے برحق فیصلہ نافذ کرنے میں امت ان کی مدد کرے گی۔ ۸۔ اگر فیصلہ سے قبل حکمین میں سے کسی کی وفات ہوجائے تواس کی بجائے اس کا فریق اسی جیسے عادل و صالح کو گزشتہ عہد و میثاق کے ساتھ روانہ کرے گا۔ ۹۔ اگر اس معاملہ میں فیصلہ کی مقررہ مدت سے قبل دونوں امیروں میں سے کسی کی وفات ہوگئی تو اس کے ساتھی اس کی جگہ کسی دوسرے شخص کو جس کے عدل پر انھیں اطمینان ہو امیر بنا لیں گے۔ ۱۰۔ یہ معاملہ فریقین کے درمیان گفت و شنید اور جنگ بندی کے سائے میں طے ہوگا۔ ۱۱۔ ہم نے اس عہد نامہ میں دونوں امیر، دونوں حکم، اور دونوں فریق کے متعلق جن شرائط پر اتفاق کیا ہے اس کا احترام سب پر لازم ہے، اللہ تعالیٰ اس پر سب سے قریبی گواہ ہے اور وہی گواہی کے لیے کافی ہے، اگر ان دونوں میں سے کسی نے بھی ان کی مخالفت کی اور حد سے تجاوز کیا تو پوری امت ان دونوں کے فیصلے سے دست بردار ہے، اور کوئی معاہدہ اور کسی کا ذمہ نہیں۔ ۱۲۔ معاہدہ کا وقت جب تک باقی ہے تمام لوگوں کو ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا پورا اطمینان دلایا جاتا ہے، ہتھیار رکھے ہوئے ہوں گے، راستے پرامن ہوں گے، فریقین کا جو فرد بھی غائب ہے اس معاملہ میں اس کے لیے بھی موجودہ لوگوں کی طرح حکم ہے۔ ۱۳۔ حکمین کا فیصلہ ایسی جگہ ہو جو شام اور عراق کے وسط میں ہو۔ ۱۴۔ ان دونوں کے پاس کوئی تیسرا فرد نہیں جائے گا البتہ وہ دونوں جسے پسند کریں وہ ان کی باہمی رضا مندی کے بعد جاسکتا ہے۔ ۱۵۔ فیصلہ کرنے کی مدت ماہ رمضان ختم ہونے تک ہے، اگر حکمین مقررہ وقت سے پہلے فیصلہ سنانا چاہیں تو کرسکتے ہیں ، اور اگر مقررہ مدت کے آخری وقت تک موخر کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں ۔ ۱۶۔ اگر وہ دونوں مقررہ مدت ختم ہونے تک کتاب اللہ اور سنت رسول کے مطابق فیصلہ نہیں کرپاتے تو فریقین اپنے پہلے کی جنگی پوزیشن پر لوٹ جائیں گے۔ ۱۷۔ اس معاملہ میں پوری امت پر اللہ کا عہد و میثاق ہے، اگر کوئی شخص اس معاملہ میں الحاد، ظلم یا اختلاف پیدا کرے گا تمام لوگ اس کے خلاف متحد ہوں گے۔ پھر اس معاہدہ پر علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے آپ کے دونوں صاحبزادے، حسن اور حسین اور عبداللہ بن عباس،