کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 705
پھر آپ روتے ہوئے پیدل آگے چل پڑے اور کہہ رہے تھے: ہائے عثمان! تیری حیا اور تیرے دین پر مجھے ماتم ہے، اس طرح آپ دمشق پہنچے۔[1] یہ ہے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی زندگی کی سچی تصویر جو آپ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو سمیٹے ہوئے ہے اور آپ کی زندگی کے خدو خال اور عثمان رضی اللہ عنہ سے آپ کی قربت کو نمایاں کرتی ہے، رہی آپ کی زندگی کی وہ تصویر جس میں آپ کی کردار کشی کرتے ہوئے آپ کو ایک مفاد پرست، لالچی اور دنیا دار انسان دکھایا گیا ہے تو اس تصویر کا دارومدار واہی تباہی اور ضعیف روایات پر ہے جو واقدی نے موسیٰ بن یعقوب سے نقل کی ہے۔[2] بے حد افسوس ہے کہ بہت سارے مورخین و مولفین ان ضعیف اور بے بنیاد روایتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو تحت الثریٰ پہنچا دیا، جیسے کہ محمود شیث خطاب نے ’’سفراء النبی‘‘[3] میں اور عبدالخالق سید ابورابیہ نے ’’عمرو بن العاص‘‘[4] میں لکھا ہے۔اور خاص طور سے مصری مولف عباس محمود عقاد جو اسناد کی کوئی اہمیت نہیں دیتا اور اس پر بحث کرنے والوں کا استہزاء کرتا ہے اس نے معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے کردار کو مجروح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ دونوں اس لیے مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے کہ وہ مفاد پرست تھے اوراتنا ہی نہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اگر تاریخی روایات کے تمام ناقدین متحد ہو کر اس سلسلے میں ان دونوں کی طرف منسوب غلط روایات کی تردید و تکذیب کریں تو بھی عقاد پر کچھ اثر پڑنے والا نہیں ، چنانچہ اس موضوع پر ضعیف اور من گھڑت روایات کو نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے: تاریخی روایات کے ناقدین اس گفتگو کی صداقت اور عبارتوں کی صحت کے متعلق جوبھی کہنا چاہیں کہیں کہ فلاں روایت کا راوی غیر معتبر ہے، اس روایت کی سند ثابت نہیں ، یا متن صحیح نہیں ، حتیٰ کہ اگر ساری تواریخ قطعیت کے ساتھ اس کی تردید کریں ، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان دونوں آدمیوں (معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما ) کے درمیان ملک گیری کے سودے پراتفاق ہوا تھا اور مسند اقتدار کے لیے ایک دوسرے کے معاون تھے، انھوں نے باہم طے کرلیا تھا کہ جس کے قبضہ میں جو حصہ آئے گا وہ اس کا حاکم ہوگا، اگریہ بات نہ ہوتی تو دونوں کے درمیان اتفاق نہ ہوتا۔[5] صحیح اورسچی بات یہ ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی شخصیت ایک اصولی شخصیت تھی، یہی وجہ رہی کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کرنے سے عاجز رہے تو مدینہ چھوڑ دیا اور آپ کی شہادت کی خبر سنی تو بہت روئے، بغیر کسی منصب کے حوالے سے آپ عثمان رضی اللہ عنہ کی مجلس شوریٰ میں برابر شریک ہوتے تھے، مدینہ چھوڑ کر آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس
[1] عمرو بن العاص ؍ الغضبان ص (۴۶۴)۔ [2] عمرو بن العاص ؍ الغضبان ص (۴۸۱)۔ [3] سفراء النبی ؍ محمود شیث خطاب ص (۵۰۸)۔ [4] عمرو بن العاص ؍ عبدالخالق سید أبورابیۃ ص (۳۱۶)۔ [5] عمرو بن العاص ؍ العقاد ص (۲۳۱، ۲۳۲)۔