کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 704
بیت المقدس پر آپ نے فتح کا پرچم لہرایا اور صرف شام ہی کی فتوحات پر بس نہیں کی بلکہ مصر کے بعض مشہور شہروں کو بھی زیرنگیں کیا۔ کیونکہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے فتوحات شام کے بعد عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی فوج لے کر مصر کی طرف روانہ ہوجائیں ، چنانچہ آپ وہاں سے مصر کی طرف چل پڑے، اور ’’عریش‘‘ پہنچ کر اسے فتح کیا، اسی طرح آپ کی فتوحات کا دائرہ فرما، فسطاط، قلعہ بابلیون، عین شمس، فیوم، اشمونین، اخمیم، بشرود، تنیس، دمیاط، تونہ، دقہلہ، دمیاط، اسکندریہ اور افریقہ کے دیگر شہر مثلاً برقہ، زویلہ اور طرابلس تک وسیع رہا۔[1] چنانچہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے آپ کو سرداری اور قیادت کے اوصاف سے متصف کرتے ہوئے فرمایا: روئے زمین پر ابوعبداللہ کے لیے امیر بن کر چلنا ہی موزوں ہے۔[2] سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں آپ خلیفہ کے مقرب اور مشیرکاروں میں سے تھے، جب بلوائیوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کرلیا اور کوئی شکل بچاؤ کی باقی نہ رہی تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ مدینہ سے شام کی طرف چلے اور کہا: اے مدینہ کے لوگو! اللہ کی قسم جو شخص عثمان کے قتل میں حصہ لے گا اللہ اس کو ذلیل کرے گا اور جو شخص ان کی مدد کرنے سے قاصر ہو اس کو مدینہ چھوڑ دینا چاہیے، پھر آپ خود اور آپ کے دونوں بیٹے عبداللہ اور محمد اوران کے بعدحسان بن ثابت رضی اللہ عنہم پھر یکے بعد دیگرے کئی لوگ وہاں سے نکل گئے۔[3] جب آپ کو راستے ہی میں خبر ملی کہ عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے اور لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر بیعت خلافت کرلی ہے تو آپ نے اپنی ذات کو مخاطب کرکے کہا: میں ابوعبداللہ تیری ذات ایسی جنگ میں ہے کہ جس میں کسی نے کسی پھوڑے پھنسی کو ذرا کھجلایا، اس نے وقت سے پہلے اس کا چھلکا اتار دیا (یعنی ناگفتہ بہ اور حد درجہ تشویش ناک صورت حال ہے) اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم کرے، ان سے راضی ہو اور ان کی مغفرت فرمائے۔ سلامہ بن زنباع الجذامی نے یہ سن کر کہا: اے عربوں کی جماعت! تمھارے اور اہل عرب کے درمیان ایک دروازہ تھا وہ اگر ٹوٹ گیا ہے تو دوسرا دروازہ بنا لو،عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ہماری یہی خواہش ہے، لیکن دروازے کو بڑھئی کی ستالیاں ہی درست کرپائیں گی، جو حق کو مشکلات کی پرپیچ وادیوں سے نکالیں گی اور لوگ پورا پورا عدل پائیں گے، پھر آپ نے ان اشعار سے مثال دیا: فَیَا لَہَفَ نَفْسِیْ عَلٰی مَالِکٍ وَ ہَلْ یَصْرِفُ مَالِکٌ حِفْظَ الْقَدْرِ ’’مالک کی جدائی پر ہائے میری بے تابی، کیا مالک تقدیر کو پھیر سکتا ہے۔‘‘ أَنْزِعْ مِنَ الْحَرِّ أَوْدٰی بِہِمْ فَأُعْذُرْہُمْ أَمْ بِقَوْمِيْ سُکُرْ ’’میں اس تاریکی کو دور کروں جو ان کو گھیرے ہوئے ہے، تو ان کو معذور سمجھوں ، یا میری قوم پر نشہ طاری ہے۔‘‘
[1] سیر أعلام النبلاء (۳؍۷۰) القیادۃ العسکریۃ فی عہد الرسول ص (۶۳۴، ۹۴۵)۔ [2] سیر أعلام النبلاء ص (۳؍۷۰)۔ [3] عمرو بن عاص ؍ الغضبان ص (۴۶۴)۔