کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 703
(( ذَکَرْتُہُ إِنِّيْ کُنْتُ إِذَا نَدَبْتُ النَّاسَ لِلصَّدَقَۃِ جَائَ مِنَ الصَّدَقِۃِ فَأَجْزَلَ، فَأَقُوْلُ: مِنْ أَیْنَ لَکَ ہَذَا یَا عَمَرو؟ فَیَقُوْلُ: مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ۔))
’’مجھے یاد آیا کہ میں نے جب لوگوں کو صدقہ کے لیے آواز دی تو یہ خوب خوب صدقہ لے کر حاضر ہوئے، میں پوچھتا کہ اے عمرو! یہ تم کو کہاں سے ملا، تو کہتے: اللہ کی طرف سے۔‘‘
یقینا عمرو نے سچ کہا، اللہ کے پاس عمرو کے لیے بہت ساری بھلائی تھی۔ زہیرکا بیان ہے کہ جب فتنہ عروج پر تھا تو میں نے کہا: میں انھیں کے پیچھے رہوں گا ان کے بارے میں میں نے اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت کچھ کہتے سنا ہے، پھر میں نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔[1]
ابوبکر،عمر، اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں آپ رضی اللہ عنہ کي خدمات:…اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن عاص کو جلندی کے دونوں بیٹوں یعنی جیفر اور عباد کو اسلام کی طرف بلانے کے لیے بھیجاتھا، چنانچہ آپ نے انھیں اسلام کی دعوت دی اوران دونوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی اور امور زکوٰۃ اورلوگوں کے مابین تصفیہ اور فیصلہ کو آپ کے حوالہ کردیا، اور آپ کے مخالفین کے خلاف دونوں ہمہ وقت آپ کے معاون رہے۔[2]
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو ایک فوج دے کر فلسطین روانہ کیا، البتہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو اختیار دے دیا تھا کہ آپ چاہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کام پر آپ کو مامور کیا ہے اسی پر باقی رہیں اور اگر آپ چاہیں تو اپنے لیے وہ پسند کرلیں جو دنیا و آخرت دونوں میں بھلا ہو، الا یہ کہ آپ جس کام پر لگے ہیں وہی آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہو۔ اس کے جواب میں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اسلام کے تیروں میں سے ایک تیر ہوں اورآپ اللہ کے بعد اس کے تیر انداز ہیں اور اسے اکٹھا کرنے والے ہیں ، پس آپ جس تیر میں سختی، خدا ترسی اور افضلیت دیکھیں اسی کو چلائیں ۔[3] پھر جب آپ مدینہ آئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو مدینہ سے نکل کر لشکر تیار کرنے کا حکم دیا تاکہ لوگ آپ کے ساتھ جائیں ، پھر آپ ان کو لشکر کے ساتھ شام روانہ کیا۔[4]
معرکۂ یرموک میں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ میمنہ پر تھے، اس جنگ میں آپ کو شرکت کام یابی کے لیے بہت موثر ثابت ہوئی تھی، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ شام کے محاذ جنگ پر ڈٹے رہے اور شام کی اسلامی فتوحات کو آگے بڑھانے میں آپ کی زبردست مشارکت رہی، چنانچہ بیسان، طبریہ، اور اجنادین کی فتوحات میں آپ نے شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا،[5] اور غزہ، لُدّ، یُبْنیٰ، عمواس، بیت جبرین، یافا، رفح اور
[1] المعجم الکبرٰی (۵؍۱۸) المستدرک (۳؍۴۵۵) امام حاکم نے اس کی تصحیح کی ہے، اورامام ذہبی فرماتے ہیں کہ اس کی سند حسن ہے۔
[2] الطبقات (۱؍۲۶۲) جوامع السیرۃ ؍ ابن حزم ص (۲۴، ۲۹)۔
[3] اِتمام الوفاء بسیرۃ الخلفاء ص (۵۵)۔
[4] فتوح الشام ؍ البلاذری ص (۴۸، ۵۱)۔
[5] تاریخ الطبری (۳؍۶۰۵) الکامل ؍ ابن اثیر (۲؍۴۹۸)۔