کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 702
کے سردار عیینہ بن حصن مسلمانوں کے حلیف بن گئے اورانھیں کی متابعت میں بنوسلیم نے جس میں عباس بن مرداس سرفہرست ہیں اور بنواشجع نے بھی مصالحت کرلی اور مسلمانوں کی جماعت اگرچہ عرب کے پورے شمالی علاقوں میں نہیں لیکن بیشتر شہروں میں ایک بڑی قوت بن کر ابھری۔[1] فضائل و مناقب: آپ کے فضائل میں زبان رسالت سے ایمان کي گواہي:…نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( أَسَلَمَ النَّاسُ وَآمَنَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ۔))[2] ’’لوگ اسلام لائے اور عمرو بن عاص ایمان لائے۔‘‘ اور دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِبَنَا الْعَاصِ مُؤْمِنَانِ عَمْروٌ وَ ہِشَامٌ۔)) [3] ’’عاص کے دونوں بیٹے یعنی عمرو اور ہشام مومن ہیں ۔‘‘ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدینہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسری لوگ یکایک گھبرا گئے، پھر لوگ منتشر ہوگئے، میں نے سالم کو دیکھا کہ انھوں نے تلوار سونتی اور مسجد میں بیٹھ گئے، ان کی دیکھا دیکھی میں نے بھی کیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے اور سالم کو دیکھا تو لوگوں کے پاس گئے اور کہا: (( أَ یُّہَا النَّاسُ أَ لَا مَفْزَعُکُمْ إِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ، أَلَا فَعَلْتُمْ کَمَا فَعَلَ ہَذَانِ الرَّجُلَانِ الْمُؤْمِنَانِ۔))[4] ’’اے لوگو! کیا میں تمھیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف نہ ابھاروں ؟ تم لوگوں نے ان دونوں مومن آدمیوں کی طرح کیوں نہ کیا؟‘‘ آپ کے حق میں رسول اللّٰہ صلي الله عليه وسلم کي دعا:…زہیر بن قیس بلوی اپنے چچا علقمہ بن رمثہ بلوی سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن عاص کو بحرین بھیجا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ آگئی، پھر آپ بیدار ہوئے تو فرمایا: ((رَحِمَ اللّٰہُ عَمْرًوا)) اللہ تعالیٰ عمرو پر رحم کرے، پھر ہم آپس میں بات کرنے لگے کہ کون سے عمرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر اونگھ آگئی اور پھر بیدار ہوئے تو فرمایا: ((رَحِمَ اللّٰہُ عَمْرًوا)) اللہ تعالیٰ رحم فرمائے عمرو پر۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول کون عمرو؟ آپ نے فرمایا: عمرو بن عاص، ہم نے کہا: ان کی کیا خصوصیت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] السیرۃ النبویۃ ؍ أبی شہبۃ (۲؍۴۳۳) السیرۃ النبویۃ؍ ابن ہشام (۴؍۲۸۰)۔ [2] سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ (۱؍۲۳۸) حدیث نمبر (۱۵۵)۔ [3] ایضًا (۱؍۲۴۰) حدیث نمبر (۱۵۶) الطبقات (۴؍۱۹۱)۔ [4] مسند أحمد (۲؍۲۰۳) اس کی سند حسن ہے۔