کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 701
((اِشْرَبَا مِنْہُ، وَ اَفْرِغَا عَلَی رُؤسِکُمَا وَ نُحُورِ کُمَا۔)) ’’اس سے تم لوگ پی لو اور اپنے سر اور سینہ پر ڈال لو۔‘‘ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا، تب تک پردے کے پیچھے سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آواز لگائی: ((أَ فْضِلَا لِأُمِّکُمَا مِمَّا فِيْ إِنَائِکُمَا۔))[1] ’’دیکھو تمھارے برتن میں جو ہے اس میں سے اپنی ماں کے لیے بھی بچانا۔‘‘ چنانچہ انھوں نے ان کے لیے بھی بچا دیا۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی سیرت آپ کا نام عمرو بن عاص بن وائل السہمی اور کنیت ابومحمد اور ابوعبداللہ ہے۔ ابن اسحاق[2] اور زبیر بن بکار[3] اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ حبشہ میں نجاشی کے پاس اسلام لائے اور صفر ۸ھ میں مدینہ ہجرت کیا، جب کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ ۸ھ میں فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے اوریہ بھی کہا گیا ہے یہ حدیبیہ اور خیبر کے درمیان اسلام لائے۔[4] سریۂ ذات السلاسل ۷ھ کی قیادت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں : غزوہ موتہ میں رومیوں کا ساتھ دے کر بنوقضاعہ کو جو معمولی کامیابی ملی تھی، اس دھوکے میں آکر یہ لوگ مسلمانوں کے صفایا کے لیے مدینہ کے قریب اکٹھا ہونے کی تیاریاں کر رہے تھے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اطلاع پاکر ان کی سرکوبی کے لیے عمرو بن عاص کی قیادت میں ایک مسلح فوج ذات السلاسل کی طرف روانہ کی، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ مہاجرین و انصار پر مشتمل تین سو مجاہدین کو لے کر آگے بڑھے اور جب آپ دشمن کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کمک طلب کی، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ابوعبیدہ بن جراح کی قیادت میں فوجی کمک آپہنچی،[5] پھر مسلمانوں نے کافروں سے جم کر لڑائی لڑی، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بنوقضاعہ کے اندر تک گھس گئے، وہ سب بھاگ کھڑے ہوئے اوران کی جماعت شکست خوردہ ہو کر منتشر ہوگئی، اس طرح عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ شام کے اطراف میں دوبارہ اسلام کی ہیبت واپس لانے اور مسلمانوں کے حلیفوں کو پہلی صداقت کی بنیادوں پر لوٹانے میں کامیاب ہوگئے، اسی طرح دوسرے قبائل بھی مسلمانوں کے حلیف بن گئے، بنوعبس، بنومرہ اور بنوذبیان کے بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے، فزارہ اور اس
[1] صحیح مسلم، حدیث نمبر (۲۴۹۷) یہ روایت صحیح بخاری میں بھی ہے دیکھئے: حدیث نمبر(۱۹۶)، (۴۳۲۸) [2] المعجم الکبیر؍ طبرانی (۹؍۳۵) ابن اسحاق نے اسے مرسلاً نقل کیا ہے۔ [3] الإصابۃ (۲؍۳) خلافۃ علی ؍ عبدالحمید ص (۲۶۳)۔ [4] تہذیب التہذیب (۸؍۵۶)۔ [5] السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ (۲؍۴۷۱) السیرۃ النبویۃ ؍ ابن ہشام (۳؍۲۸۰)۔