کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 700
شکست دیا، اس معرکہ میں ایک آدمی نے ابوعامر کے گھٹنے میں زبردست تیر مارا، وہ آپ کے پیر میں پیوست ہوگیا۔[1] میں نے کہا: اے چچا! آپ کو کس نے تیر مارا؟ انھوں نے دُرید کی طرف اشارہ کیا، میں نے اسے پکڑنے کا عزم کیا اور جا ملا،جب اس نے مجھے دیکھا تو پیٹھ پھیر کربھاگنے لگا۔ میں اس سے کہنے لگا: کیا تجھے شرم نہیں آتی؟ کیا تو عربی نہیں ؟ کیا تو مقابلہ میں نہیں آئے گا؟ چنانچہ وہ رک گیا پھر ہم دونوں آپس میں بھڑ گئے، ایک دوسرے پر وار کیا اور میں نے اسے قتل کردیا، پھر میں لوٹ کر ابوعامر کے پاس گیا اور کہا: اللہ نے تمھارے اوپر حملہ کرنے والے کو قتل کردیاہے، انھوں نے کہا: اب اس تیر کو نکالو، چنانچہ میں نے تیر نکالا اور زخم سے تیزی خون بہنے لگا۔ انھوں نے کہا: اے میرے بھتیجے! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ سے میرا سلام کہو اور کہو کہ میرے لیے مغفرت کی دعا کردیں اور ابوعامر مجھے اپنی جگہ امیر مقرر کردیا، پھر کچھ دیر زندہ رہے اور وفات ہوگئی، جب ہم لوٹ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو ان کی بات سنائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر آپ دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور یہ دعا کی: ((اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِعُبَیْدٍ أَبِيْ عَامِرٍ)) ’’اے اللہ! عبید ابوعامر کو بخش دے۔‘‘ آپ کے ہاتھ اس قدر بلند تھے کہ میں نے آپ کے بغل کی سفیدی دیکھ لی، پھر آپ نے فرمایا: ((اَللّٰہُمَ اجْعَلْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَوْقَ کَثِیْرٍ مِنْ خَلْقِکَ۔)) ’’اے اللہ! قیامت کے دن انھیں اپنی بہت ساری مخلوق کے اوپر رکھ۔‘‘ میں کہنے لگا: اے اللہ کے رسول اور میرے لیے بھی دعا فرما دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللّٰہِ بِنْ قَیْسٍ ذَنْبَہُ وَادْخِلْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مُدْخَلًا کَرِیْمًا۔))[2] ’’اے اللہ عبداللہ بن قیس کے گناہ کو بخش دے اور قیامت کے دن انھیں معزز جگہ میں داخل فرما۔‘‘ د اس نے بشارت قبول نہ کي تم دونوں اسے قبول کرو:…سیّدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں جعرانہ[3] میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا، ایک اعرابی (بدو) آپ کے پاس آیا اور کہا: کیا آپ مجھ سے اپنا وعدہ پورا نہیں کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أَبْشِرْ‘‘ خوش ہوجا، اس نے کہا: آپ کی بشارت بہت ہوچکی، تب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری اور بلال کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: (( إِنَّ ہَذَا قَدْ رَدَّ الْبُشْرَی فَاَقْبَـلَا أَنْتُمَا۔)) ’’اس نے بشارت قبول کرنے سے انکار کردیا، تم دونوں اس کو قبول کرو۔‘‘ دونوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم نے قبول کیا، پھر آپ نے ایک پیالہ منگوایا، اس میں اپنے ہاتھوں اور چہرے کو دھویا، پھر کلی کی اور فرمایا:
[1] سیر أعلام النبلاء (۲؍۳۸۵)۔ [2] صحیح مسلم، حدیث نمبر (۲۴۹۸) یہ روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔ دیکھئے: حدیث نمبر (۲۸۸۴)، (۴۳۲۳)، (۶۳۸۳) (مترجم) [3] مکہ اور طائف کے درمیان مکہ کے قریب ایک جگہ ہے۔