کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 699
اپنے ساتھ ایک جماعت لے کر مدینہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی خاطر اپنے ملک سے نکلے، لیکن کشتی نے انھیں حبشہ کی سرزمین پہنچا دیا، پھر آپ وہاں سے جعفر رضی اللہ عنہ کے ساتھ خیبر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔[1]
بہرحال ان تمام روایات میں جمع کی صورت بایں طور ممکن ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے پہلی ہجرت مکہ کے لیے کی اور اسلام لائے، وہاں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے مہاجرین کے ساتھ انھیں بھی روانہ کردیا، پھر آپ وہاں سے اپنی قوم میں دعوت وتبلیغ کے لیے چلے گئے، اس لیے کہ آپ کا وطن مشرقی سمت میں حبشہ کے بالکل بالمقابل تھا اور وہاں رہتے ہوئے جب آپ کو یہ خبر مل گئی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ مدینہ میں بحفظ و اماں سکونت پذیر ہوچکے ہیں تو آپ نے اپنے ساتھ اسلام لانے والوں کو لے کر مدینہ کا رخ کیا، لیکن سخت ہوا کی
وجہ سے کشتی نے ان سب لوگوں کو حبشہ کی سرزمین میں اتار دیا، یہی احتمال قابل توجہ ہے اور اسی طرح تمام روایات میں تطبیق کی صورت پیدا ہوجاتی ہے، پس اسی پر اعتماد کیا جانا چاہیے۔[2]
۱۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوموسیٰ اشعری کو تمغۂ شرف سے نوازتے ہیں :
ا تمھیں دو مرتبہ ہجرت کا شرف ملا:…ابوموسیٰ اشعری کا بیان ہے کہ ہم اپنی قوم کے پچاس سے کچھ زائد آدمیوں کے ساتھ یمن سے نکلے، ہم تین لوگ یعنی میں ، ابو رُہم اور عامر آپس میں بھائی تھے، ہمیں ہماری کشتی نے شاہ حبشہ نجاشی کے یہاں جعفر اور ان کے ساتھیوں کے پاس پہنچا دیا، پھر فتح خیبر کے موقع پر ہم ہجرت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَکُمُ الْہِجْرَۃُ مَرَّتَیْنِ: ہَاجَرْتُمْ إِلَی النَّجَاشِيْ وَ ہَاجَرْتُمْ إِلَيَّ۔))[3]
’’تمھیں دو مرتبہ ہجرت کا شرف ہے، ایک مرتبہ تم نے نجاشی کے یہاں ہجرت کی اور ایک مرتبہ میرے پاس۔‘‘
اور انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((یَقْدِمُ عَلَیْکُمْ غَدًا قَوْمٌ ہُمْ أَرَقُّ قُلُوْبًا لِلإِسْلَامِ مِنْکُمْ۔))
’’کل تمھارے پاس ایک قوم آنے والی ہے، وہ اسلام کے لیے تم سے زیادہ نرم دل ہیں ۔‘‘
ج ۔ اے اللّٰہ عبداللّٰہ بن قیس کو بحش دے اور انھیں باعزت مقام عطا فرما:… ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ حنین سے فارغ ہوئے تو ابوعامر اشعری رضی اللہ عنہ کو لشکر اوطاس کا امیر بنا کربھیجا، وہاں دُرید بن الصمہ سے لڑائی ہوئی، وہ قتل کیا گیااور اللہ نے اس کے ساتھیوں کو
[1] صحیح البخاری حدیث نمبر (۳۱۳۶)،( ۳۸۷۶) و مسلم (۲۵۰۲)،( ۲۵۳۰)۔
[2] فتح الباری (۷؍۱۸۹)۔
[3] صحیح البخاری حدیث نمبر( ۳۸۷۶) و صحیح مسلم حدیث نمبر (۲۵۰۲)۔