کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 698
یہ ہے کہ ان کے سامنے وہی ضعیف اور موضوع روایات رہیں جنھوں نے حیات صحابہ رضی اللہ عنہم کی کردار کشی کرنے میں کوئی موقع نہیں جانے دیا ہے۔ خاص طور پر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو اپنی ہدف کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ بیوقوف تھے، رائے کے کمزور تھے، ان کی بات میں خود اعتمادی نہ تھی، بڑے ہی بے پرواہ تھے، اسی لیے ’’تحکیم‘‘ کے معاملہ میں عمرو ابن عاص رضی اللہ عنہ نے انھیں دھوکا دے دیا۔
دوسری طرف عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ تصویر پیش کیا گیا کہ وہ ایک دھوکے باز اور چال باز آدمی تھے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر مذموم اوصاف و عادات کو دشمنان اسلام نے ایسی دو عظیم ہستیوں کے سرتھوپنے کی کوشش کی ہے، جنھیں مسلمانوں نے ایک بڑے اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے اپنا قائد تسلیم کیا تھا اور یہ اختلاف ایسا پُرخطر تھا جس کے نتیجے میں بہت سے مسلمانوں کے خون بہ چکے تھے۔
بیشترمورخین، ادباء اور محققین نے دشمنان صحابہ کی ان من گھڑت روایات کو تاریخی حقائق کی حیثیت سے قبول کیا ہے، ان کے صحیح اور غلط ہونے کی کوئی تحقیق نہیں کی، گویا کہ وہ ایسا سچ ہے جس میں شک کی ادنیٰ بھی گنجائش نہیں ہے، بہرحال یہ ممکن ہے کہ ان واقعات کے جذباتی اسلوب بیان اور مکر و فریب کی دلچسپ منظر کشی سے متاثر ہو کر لوگوں نے ان روایات کا اہتمام کیا ہو اور مورخین نے انھیں تحریر کیا ہو۔ واضح رہے کہ ہماری اس گفتگو کا دار و مدار ’’تحکیم‘‘ کے ماقبل و ما بعد کی تفصیلات ہیں نہ کہ اصل تحکیم، اس لیے کہ وہ ایک مسلمہ حقیقت ہے، جس میں قطعاً کوئی شک نہیں ۔[1] چنانچہ میں نے اصل موضوع میں داخل ہونے کے لیے دو جلیل القدر صحابہ یعنی ابوموسیٰ اشعری اور عمرو ابن عاص رضی اللہ عنہما کی سیرت سے اس بحث کا آغاز کیا ہے۔
سیّدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی سیرت
آپ رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہ بن قیس بن حضار بن حرب ہے، آپ دین کے امام، فقیہ اورحافظ قرآن تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پسند صحابی، آپ کی کنیت ابوموسیٰ الاشعری تمیمی ہے۔[2] آپ مکہ میں اسلام لانے والے پرانے لوگوں میں سے ہیں ، ابن سعد رحمہ اللہ آپ کے اسلام کے بارے میں لکھتے ہیں : آپ مکہ آئے اور سعیدبن عاص کے حلیف رہے، پرانے مسلمانوں میں سے ہیں ، حبشہ کی طرف آپ نے ہجرت کی۔[3]
بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ اسلام لانے کے بعد اپنی قوم میں دعوت وتبلیغ کے لیے واپس چلے گئے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے آپ کے اسلام کے بارے میں وارد ہونے والی تمام روایات کو جمع کیاہے اور لکھا ہے کہ ان میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس لیے کہ صحیح بخاری کی روایت میں موجود ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ
[1] مرویات أبی مخنف فی تاریخ الطبری ص (۳۷۸) تنزیہ خال أمیر المومنین معاویہ ص (۳۸)۔
[2] سیر أعلام النبلاء (۲؍۳۸۱)۔
[3] الطبقات (۴؍۱۰۷)۔