کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 697
علاوہ ازیں علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے ایک دوسرے پر لعنت کرنے والی روایت سند کے اعتبار سے بھی ثابت نہیں ہے، کیونکہ اس میں ابومخنف لوط بن یحییٰ متعصب رافضی راوی ہے، جس کی روایتیں قابل اعتماد نہیں ہوتیں اور پھر شیعہ مذہب کی صحیح ترین کتابیں شیعہ حضرات کو صحابہ کو گالی دینے سے منع کرتی ہیں ، چنانچہ آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو گالی دینے والوں کو روکا اور کہا: مجھے سخت ناپسند ہے کہ تم لوگ گالیاں دینے والے بن جاؤ، اگر تم ان کے اعمال واحوال کا ذکر خیر کرتے تو یہ زیادہ درست بات تھی اور قابل معذرت تھی، کاش کہ تم لوگ انھیں گالیاں دینے کے بجائے یہ دعا کرتے کہ اے اللہ ہمارے اور ان کے خون کی حفاظت فرما، ہمارے اور ان کے درمیان مصالحت پیدا کردے۔[1] پس مختصر یہ کہ شیعوں کی نگاہ میں ان کی سب سے معتبر کتاب کا یہ اعتراف ہے کہ گالیاں دینا اور تکفیر کا حکم لگانا علی رضی اللہ عنہ کا طریقہ نہیں تھا۔[2]
(۳)… تحکیم
صفین کی لڑائی ختم ہوئی اور فریقین کے درمیان تحکیم قبول کرنے پر اتفاق ہوگیا، تحکیم کا مطلب یہ ہے کہ دونوں گروہ اپنی اپنی طرف سے ایک آدمی کو حَکَمْ (فیصل) منتخب کریں ، پھر وہ دونوں حَکم جس چیز میں مسلمانوں کی بھلائی دیکھیں متفق ہوجاتیں اور سِب اس کو تسلیم کریں ۔ چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اور علی رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو اپنا اپنا حکم منتخب کیا اور حسب اتفاق رمضان ۳۸ھ میں دومۃ الجندل میں حکمین کی طرف سے ’’عہد نامہ تحکیم‘‘ تحریر میں لایا گیا۔
علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی ایک جماعت نے آپ کے اس عمل کو کفر لازم کرنے والا گناہ قرار دیا اور کہا کہ انھیں اللہ کی بارگاہ میں اس عمل سے توبہ کرنا لازم ہے، پھر یہ لوگ آپ کے خلاف نکل پڑے، اسی لیے انھیں خوارج (نکل جانے والے) کہا جانے لگا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بھیجا، جنھوں نے ان سے اس مسئلہ پر مناظرہ اور گرما گرم مباحثہ کیا، پھر علی رضی اللہ عنہ نے خود ان سے مناظرہ کیا، پھر ان میں سے کچھ لوگوں نے آپ کی بات تسلیم کرلی اور کچھ لوگوں نے انکار کردیا، جس کی وجہ سے ان کے اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان لڑائیاں ہوئیں اور نتیجتاً آپ کی فوج کمزور ہوگئی اور آپ کے ساتھی درماندہ ہوگئے، اس طرح وہ لوگ برابر اپنی سازش اور ریشہ دوانیوں میں لگے رہے، یہاں تک کہ آپ کو اچانک قتل کردیا، جس کی تفصیل آئندہ صفحات میں مناسب مقام پر ان شاء اللہ بیان کی جائے گی۔
’’تحکیم‘‘ کا معاملہ پوری خلافت راشدہ کی تاریخ میں سب سے خطرناک اور نازک ترین ہے، بہت سے قلم کار اور مولفین اس مقام پر بہک گئے ہیں اور اپنی انھیں معیوب تحریروں کو اپنی تالیف میں قلم بند کردیا ہے اس کی وجہ
[1] نہج البلاغۃ ص (۳۲۳)۔
[2] أصول مذہب الشیعۃ (۲؍۹۳۴)۔