کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 696
اس لیے کہ علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کی مصالحت ان لوگوں پر نفاذ قصاص کی مصالحت کے لیے پیش خیمہ ثابت ہو رہی تھی، لہٰذا یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جنگ جمل میں فتنہ کی آگ بھڑکانے کے لیے یہ لوگ بھرپور کوشش کریں اور صفین میں خاموش رہیں ؟[1] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کو لعن طعن کرنے سے روکتے ہیں : جب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ آپ کے لشکر کے دو آدمی معاویہ کو گالی دینے اور اہل شام کو لعن طعن کرنے کے لیے ایک دوسرے پر غالب آنا چاہتے ہیں تو آپ نے ان دونوں کو پیغام دیا کہ آپ لوگوں کے متعلق جو مجھے خبر ملی ہے اس سے باز آجاؤ، پھر وہ دونوں آپ کے پاس آگئے اور کہا: اے امیر المومنین! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں ، رب کعبہ کی قسم! دونوں کہنے لگے: پھر آپ ان کو گالیاں دینے اور ان پر لعن طعن کرنے سے ہمیں کیوں روکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: مجھے یہ ناپسند ہے کہ آپ لوگ لعانین (لعنت گروہ) میں سے ہوجاؤ، ہاں تم یہ کہو کہ اے اللہ ہمارے اور ان کے خونوں کی حفاطت فرما، ہماری اور ان کی اصلاح کردے، انھیں گمراہی سے دور رکھ تاکہ جو حق سے ناواقف ہے وہ اسے جان لے اور جو ضلالت میں ڈوب گیا ہے وہ اس سے کنارے ہو جائے۔[2] البتہ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو بات مشہور ہے کہ آپ دعائے قنوت میں معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب پر بددعا کرتے تھے اور جب معاویہ رضی اللہ عنہ دعائے قنوت پڑھتے تو علی، ابن عباس، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم پر لعنت کرتے تھے، یہ بات بالکل غلط ہے، اس لیے کہ یہ لوگ جلیل القدر صحابی تھے، اور دوسروں کے بالمقابل صحابہ شرعی احکامات کے زیادہ پابند تھے، جس میں کسی مسلمان کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔[3] چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ((مَنْ لَعَنَ مُؤْمِنًا فَہُوَ کَقَتْلِہٖ۔))[4] ’’جس نے کسی مومن کو لعنت کی تو اس کو قتل کردینے کے مترادف ہے۔‘‘ اور فرمایا: ((لَیْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَبِاللَّعَّانِ)) [5] ’’مومن طعنہ زنی اور لعنت گر نہیں ہوتا۔‘‘ نیز فرمایا: ((لَا یَکُوْنُ اللَّعَّانُوْنَ شُفَعَائَ وَ لَا شُہَدَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔))[6] ’’لعنت کرنے والے بروز قیامت شفاعت اور شہادت کے حق دار نہ ہوں گے۔‘‘
[1] أحداث و أحادیث فتنۃ الہرج ص (۱۴۷)۔ [2] الأخبار الطوال ص (۱۶۵) بحوالہ تحقیق مواقف الصحابۃ فی الفتنۃ (۲؍۲۳۲)۔ [3] تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍۲۳۲)۔ [4] صحیح البخاری؍ الأدب (۷؍۸۴)۔ [5] السلسلۃ الصحیحۃ ؍ ألبانی حدیث نمبر (۳۲۰) صحیح سنن ترمذی ؍ ألبانی حدیث نمبر (۱۱۱۰)۔ [6] صحیح مسلم (۴؍۲۰۰۶) حدیث نمبر (۲۵۹۸)۔