کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 695
رافضی مورخین نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نقائص و گستاخیوں کا طورمار باندھ کر انھی قصوں اور اشعار کی شکل میں خوب رواج دیا ہے تاکہ یہ باتیں بآسانی مسلمانوں کے درمیان پھیل سکیں ۔ انھوں نے اہل سنت کی لاعلمی میں پاک باز صحابہ کی شان میں تحقیر و تذلیل کا نشانہ سادھا، حالانکہ اہل سنت نے دیر ہی سہی، لیکن اسلام کی تاریخی روایات کی تحقیق کے میدان میں قدم رکھا، لیکن افسوس جب تک تحقیق کا دروازہ کھلا تب تک بہت سارے قصہ گو حضرات کے نزدیک یہ اشعار اور حکایات زبان زد ہوچکے تھے اور بہت سی خرافات مسلمات و یقین کا درجہ پاچکی تھیں ، حتیٰ کہ بعض اہل سنت مورخین کے نزدیک بھی ان کو یہی درجہ مل چکا تھا۔[1] صفین سے واپسی کے بعد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا قبروں کی زیارت کرنا: جنگ صفین سے لوٹنے کے بعد امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ چند قبروں سے گزرے تو یہ دعا کیا: اے وحشت ناک مکانوں کے اور ویران پڑاؤ گاہوں کے مومن، و مومنہ، اور مسلم و مسلمہ مکینو! تم ہم سے پہلے پہنچے والے ہو اور ہم تمھارے پیچھے ہیں ، عنقریب ہم تم سے ملنے والے ہیں ۔ اے اللہ تو ہمیں اور ان کو بخش دے، ہم سے اور ان سے گناہوں کو درگزر کردے، ہر قسم کی تعریف اللہ واحد کے لیے ہے جس نے زمین کو زندوں اور مردوں کے لیے سنگم بنایا، اللہ ہی کے لیے تعریف ہے، جس نے تم کو پیدا کیا، اسی پر تم کو اکٹھا کرے گا اور اسی سے تم کو اٹھائے گا، بشارت ہے اس شخص کے لیے جس نے آخرت کو یاد کیا، حساب کی تیاری کی اور قناعت کی زندگی گزاری۔[2] قاتلین عثمان کا جنگ پر اصرار: قاتلین عثمان پوری کوشش میں تھے کہ طرفین سے لڑائی برابر چلتی رہے، تاکہ سب آپس میں مرمٹیں اور دونوں کی قوت کمزور ہوجائے اور یہ لوگ قصاص اور سزا سے بچ جائیں ، اسی لیے جب انھوں نے اہل شام کو جنگ بندی کے لیے مصاحف اٹھائے ہوئے دیکھا اور علی رضی اللہ عنہ کودیکھا کہ وہ اہل شام کا مطالبہ قبول کرتے ہوئے جنگ بندی کا حکم دے رہے ہیں تو یہ لوگ گھبرائے اور امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو ان کے عزم سے روکنے کی پوری کوشش کرنے لگے، لیکن اب جنگ بند ہو چکی تھی اور یہ لوگ حیران تھے، اس لیے اب ان کے سامنے اس بات کے علاوہ کوئی چارکار نہ تھا کہ علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیں ، چنانچہ انھوں نے ’’الحکم للہ‘‘ کا مقولہ گھڑا اور دونوں گروہوں سے کٹ کر الگ جاکر پناہ لی، جنگ جمل کی طرح اس معرکہ میں ان کا اصل ہاتھ رہا یہاں بھی یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود تھے، لیکن افسوس مورخین نے اس پر توجہ کو مرکوز نہ کی، اور نہ ہی اس راز سے پردہ ہٹایا کہ کئی مہینوں تک چلنے والی خط و کتابت اور سفارتی کوششیں کیوں ناکام ہوئیں ؟ اور نہ ہی قاتلین عثمان کے اس ممکنہ کردار پر گفتگو کی جسے یہ لوگ معرکۂ صفین میں طرفین کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لیے بروئے کار لاسکتے تھے،
[1] قصص لا تثبت (۱؍۱۰)۔ [2] البیان و التبیان ؍ جاحظ (۲؍۱۴۸) فرائد الکلام للخلفاء الکرام ص (۳۲۷)۔