کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 693
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے قول پر تعلیق لکھی ہے اور بحمد للہ اللہ کی توفیق آپ کے شامل حال رہی، لکھتے ہیں ، یہ صحیح ہے (کہ غلطی کرجانے والا مجتہد ایک اجر پائے گا، اورصحابہ اس کا بدرجہ اولیٰ مستحق ہیں ) لیکن اس قاعدہ کو ہر فرد پر تطبیق دینا ایک مشکل مسئلہ ہے، اس لیے کہ مذکورہ قاعدہ باب کی حدیث ’’قَاتِلُ عَمَّارِ وَسَالِبُہُ فِی النَّارِ‘‘ سے متصادم ہے اور اسی وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ کا قاتل ابوالغادیہ کو بھی ایک اجر ملے گا، اس لیے کہ اس نے اجتہادی غلطی کی بناپر انھیں قتل کیا تھا، لہٰذا صحیح بات یہ ہے کہ کہا جائے قاعدہ اپنی جگہ صحیح ہے، البتہ اس سے وہ افراد الگ ہوں گے جن کی کوئی قطعی دلیل موجود ہو، جیسے کہ یہاں ہے، یہ راستہ نکالنا اس بات سے بہتر ہے کہ مذکورہ قاعدہ کے مقابل صحیح حدیث کو چھوڑ دیا جائے۔[1] علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ابوالغادیہ کی سوانح کا خاکہ اس طرح پیش کیا ہے: ان کے نام میں اختلاف ہے، پس کہا گیا ہے ہے ان کا نام یسار بن سبع تھا اور بعض لوگوں نے یسار بن ازہر اوربعض نے مسلم بتایا ہے، شام میں سکونت پذیر تھے، واسط بھی گئے تھے، ان کا شمار شامیوں میں ہوتا ہے، ایام شباب میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہے، انھی کا بیان ہے کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا تو نوجوان تھا، اپنے خاندان کی بکریوں کو چراتا تھا، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے: ((لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضَکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔))[2] ’’میرے بعد کافر نہ ہوجانا، کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارے۔‘‘ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے شدید محبت کرتے تھے، انھوں نے ہی عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو قتل کیا تھا اور جب ان سے عمار کے قتل کا تذکرہ کیا جاتا کو کہتے کوئی پرواہ نہیں ۔ علماء کے نزدیک ان کی زندگی ایک معمہ ہے۔[3] عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں جنگ صفین کا ایک جھوٹا واقعہ: نصر بن مزاحم الکوفی کا بیان ہے کہ اہل عراق نے حملہ کیا اور اہل شام نے ان کا جواب دیا، پھر سب آپس میں ٹکرا گئے، عمرو بن عاص نے بھی حملہ کیا… اور علی رضی اللہ عنہ یہ شعر پڑھتے ہوئے ان کے مد مقابل ہوئے: قَدْ عَلِمَتْ ذَاتُ الْقُرُوْنِ الْمَیْل وَ الْکَفُّ وَ الْأَنَامِلَ الطُّفُوْل ’’لٹکی ہوئی چوٹیاں اور نرم و نازک ہتھیلیوں اور انگلیوں والی نے جان لیا۔‘‘ پھر آپ نے عمرو کو نیزہ مارا، پٹخ دیا، عمرو بن عاص نے اپنے پیروں سے دفاع کیا، تو اس کی شرم گاہ کھل گئی، علی نے اپنا چہرہ ہٹا لیا اور شدید زخمی کردیے گئے، لوگوں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ نے آدمی کو نکل جانے کا موقع دے دیا، آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو وہ کون تھا؟ لوگوں نے کہا: نہیں ، آپ نے کہا: وہ عمرو بن عاص تھا، اس
[1] سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ (۵؍۱۸، ۱۹)۔ [2] مسند أحمد (۴؍۷۶) اس کی سند حسن ہے۔ [3] الاستیعاب فی معرکۃ الأصحاب، أثر نمبر (۳۰۸۹)۔