کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 692
سے اس قدر غمزدہ ہوئے کہ فرمایا، کاش کہ میں آج سے بیس سال قبل ہی مرجاتا۔[1]
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا قاتل کون ہے؟
ابوالغادیہ جہنی عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کی تفصیل جو بیان کرتا ہے کہ جنگ صفین کے دن عمار فوجی دستے کے اگلے حصہ میں ایک آدمی کو ٹھہرنے اور صبر کرنے کی تلقین کر رہے تھے، جب وہ دونوں صفوں کے درمیان ہوئے، ایک شخص نے میدان صاف دیکھ کر ان کے گھٹنے پر نیزے سے وار کردیا وہ گرگئے اور ان کی خود سر سے ہٹ گئی، پھر میں نے اس پر تلوار چلا دی اور اچانک میں دیکھتاہوں کہ وہ عمار کا سر ہے اس طرح عمار قتل کر دیے گئے۔
راوی کہتاہے کہ ابوغادیہ نے پینے کے لیے پانی مانگا تو اسے شیشے کے گلاس میں پانی دیا گیا لیکن اس نے نہیں پیا، پھر مٹی کے ایک پیالے میں پانی دیا گیا تو پی لیا، یہ انداز دیکھ کر ایک آدمی نے کہا شیشے کے گلاس میں پانی پینے سے زہد دکھاتا ہے، اور عمار کو قتل کرنے میں زہد نہیں دکھایا۔[2]
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ((قَاتِلُ عَمَّارٍ وَسَالِبُہٗ فِی النَّارِ)) [3]’’عمار کا قاتل اوران کا ہتھیار چھیننے والا جہنم میں جائے گا۔‘‘
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ بات معلوم ہے کہ جنگ صفین میں عمار رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے اور انھیں معاویہ رضی اللہ عنہ کی شامی جماعت نے قتل کیا تھا، اس میں ابوالغادیہ نام کا ایک آدمی تھا جو بھاری بھرکم تھا اسی نے آپ کو قتل کیا تھا اور کہا گیا ہے کہ وہ صحابی تھے۔[4]
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ان جنگوں میں صحابہ کرام کے بارے میں یہی گمان کرنا مناسب ہے کہ وہ اجتہاد کا سہارا لے رہے تھے اور غلطی کرجانے والے مجتہد کو ایک اجر ملتا ہے، جب یہ بات انفرادی طور پر فرد واحد کے حق میں ثابت ہے تو صحابہ کرام کے بارے میں یہ بات بدرجۂ اولیٰ ثابت ہوگی۔[5]
امام ذہبی لکھتے ہیں : روافض کے نزدیک ابن ملجم آخرت میں سب سے بدبخت انسان ہوگا، حالانکہ وہ ہمارے یعنی اہل سنت کے نزدیک ان لوگوں میں سے ہے جس کے لیے ہم جہنم کی امید رکھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اس کو معاف بھی کرسکتاہے اور یہی حکم ان لوگوں کا بھی جو عثمان، زبیر، طلحہ، سعید بن جبیر، عمار ، خارجہ اور حسین رضی اللہ عنہم کے قاتل تھے، ان تمام بدبختوں سے ہم اپنی برأت کا اظہار کرتے ہیں ، ان سے ہمیں سخت نفرت و بغض ہے اور ان کے معاملے کو اللہ کے حوالے کرتے ہیں ۔[6]
[1] أنساب الأشراف (۱؍۱۷۰) عمرو بن عاص ؍الغضبان ص (۶۰۳)۔
[2] الطبقات الکبریٰ (۳؍۲۶۰، ۲۶۱) اس کی سند صحیح ہے۔
[3] السلسلۃ الصحیحۃ ؍ شیخ ألبانی (۵؍۱۸، ۱۹)۔
[4] البدایۃ والنہایۃ (۶؍۲۲۰)۔
[5] الإصابۃ (۷؍۲۶۰)۔
[6] تاریخ الإسلام ؍ عہد الخلفاء الراشدین ص (۶۵۴)۔