کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 690
اٹھنے کی سکت نہ تھی اور حلق سوکھے جارہے تھے۔[1]
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لیلۃ الہریر اور یوم الجمعہ کی حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں : انھوں نے ایک دوسرے کو دانتوں سے کاٹا، دو آدمی لڑتے لڑتے تھک جاتے اور زمین پر گر جاتے، پھر تھوڑی دیر آرام کرکے اٹھتے اورایک دوسرے کو زیر کرتے، پھر اٹھتے اور لڑتے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ اسی طرح لڑتے مرتے رہے یہاں تک کہ جمعہ کی صبح نمودار ہوگئی اور لوگوں نے صبح کی نماز اشاروں سے پڑھی، لڑائی چلتی ہی رہی یہاں تک کہ چاشت کا وقت ہوگیا اور فتح و نصرت اہل شام کے خلاف، اہل عراق کی طرف متوجہ ہوگئی۔[2]
تحکیم کی دعوت:
لیلۃ الہریر کے بعد دونوں فوجیں اتنی بے حال ہوچکی تھی کہ اب مزید لڑائی کی طاقت نہ تھی، کندہ کے سردار اشعث بن قیس نے لیلۃ الہریر میں اپنی جماعت کے لوگوں میں تقریر کرتے ہوئے کہا: اے مسلمانو! تم نے دیکھا، آج کے دن تم پر کیا گزری اور عربوں کی کس قدر تعداد میدان جنگ میں ماری گئی، میں بوڑھا ہوگیا ہوں ، مگراللہ کی قسم! جس قدر ہولناک نظارہ آج کے دن دیکھا ہے پہلے کبھی نہیں دیکھا، دیکھو جو شخص میری بات سن رہا ہے وہ دوسرے شخص کو پہنچا دے کہ ہمیں یہ تہیہ کرلینا چاہیے کہ ہم کل نہیں لڑیں گے، کیونکہ عرب کثرت سے مارے جارہے ہیں اور ناحق مسلمانوں کا خون ہو رہا ہے، اللہ کی قسم! میں یہ باتیں جنگ سے ڈر کر یا بزدلی کی وجہ سے نہیں کہہ رہا ہوں ، بلکہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور مجھے مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں پر ترس آرہا ہے، اگر کل ہم مارے گئے تو ان غریبوں کا کیا حال ہوگا۔ اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں نے اپنی قوم کو اوراپنے دینی بھائیوں کو دور اندیشی اور بھلائی کا مشورہ دیا ہے، اب میں بری ہوں ۔[3] دوسری جانب اس تقریر کی خبر جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملی تو آپ نے کہا: رب کعبہ کی قسم! ان کی رائے درست ہے، اگر ہم جنگ کی آگ میں کل پھر کودے اورمارے گئے تو رومی ہماری عورتوں اور بچوں پر اور اہل فارس اہل عراق اور ان کی آل اولاد پر چڑھ آئیں گے، یقینا یہ دور اندیشوں اوربابصیرت لوگوں کی نگاہ ہے، پھر آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: مصاحف کو اپنے نیزوں کی انیوں سے باندھ دو۔[4]
سیّدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی شہادت اور مسلمانوں پر اس کا اثر:
عمار رضی اللہ عنہ کی شان میں فرمان رسول ((تَقْتُلَکَ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ)) [5] یعنی باغی گروہ قتل کرے گا، صحیح و ثابت احادیث میں شمار ہوتا ہے۔ معرکۂ صفین میں ان کی شہادت کی وجہ سے مسلمانوں پر گہرا اثر پڑا، کیونکہ آپ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بزرگ قائد تھے، جہاں آپ جاتے وہاں سب جاتے، خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی صفین
[1] شذرات الذہب (۱؍۴۵) وقعۃ صفین ص (۳۶۹)۔
[2] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۸۳)۔
[3] وقعۃ صفین ؍ المتغری ص (۴۷۹)۔
[4] وقعۃ الصفین ؍ المتغری ص (۴۸۱، ۴۸۲)۔
[5] صحیح مسلم، حدیث نمبر (۲۹۱۶)۔