کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 69
مہمانوں نے بھی قسم کھا لی کہ ہم اس وقت تک نہیں کھائیں گے جب تک ابوبکر نہیں کھاتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ شیطان کی طرف سے ہے، پھر کھانا منگوایا اور تناول فرمایا۔ عبدالرحمن کہتے ہیں : اللہ کی قسم ہم جو لقمہ اٹھاتے تھے اس کے نیچے اس سے زیادہ ہو جاتا تھا۔ مہمانوں نے آسودہ ہو کر کھانا تناول فرمایا اور کھانا پہلے سے زیادہ ہو گیا، آپ نے دیکھا تو پہلے سے زیادہ تھا۔ بیوی سے کہا: اے بنو فراس کی بہن یہ کیا ماجرا ہے؟ اس نے کہا: میری آنکھ کی ٹھنڈک! یہ پہلے سے تین گنا زیادہ ہے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھایا اور فرمایا: یہ قسم شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر اسے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور وہ صبح تک آپ کے پاس رہا۔ ہمارے اور مشرکین کے درمیان معاہدہ تھا جس کی مدت ختم ہو چکی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ افراد کو عریف بنایا اور ہر ایک کے ساتھ ایک جماعت تھی اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ ہر ایک کے ساتھ کتنے لوگ تھے۔ تمام لوگوں نے آسودہ ہو کر وہی کھانا کھایا۔[1] ۶۔ مدینہ سے شام کا تجارتی سفر: عہد نبوی میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے بصریٰ اور شام کا تجارتی سفر کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی رفاقت کی محبت آپ کو تجارتی سفر سے نہ روک سکی اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے شدید محبت کے باوجود آپ کو اس سے منع فرمایا۔[2] ۷۔ خوف الٰہی: خوف الٰہی بہترین خصلت ہے جو انسان کو معصیت سے روکتی ہے اور ظاہر و باطن میں مراقبہ الٰہی پر ابھارتی ہے، جس سے اس کے افعال پاک اور اعمال اچھے ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اپنے خوف کا حکم فرمایا ہے۔ارشاد ربانی ہے: ﴿ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ ﴾ (البقرۃ: ۴۰) ’’اے بنی اسرائیل! میری اس نعمت کو یاد کرو جومیں نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمھارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو۔‘‘ جو لوگ اللہ رب العالمین سے ڈرنے والے ہیں ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔
[1] البخاری: المناقب ۳۵۸۱، مسلم: الاشربہ: ۲۰۵۷۔ [2] فتح الباری: ۴/ ۳۵۷، بحوالہ الخلافۃ الراشدۃ والدولۃ الامویۃ من فتح الباری: ۱۶۳۔