کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 689
اَلْیَوْمَ اَلْقَی الْاَحِبَّۃَ مُحَمَّدًا وَ حِزْبَۃً[1]
’’آج اپنے محبوبوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی جماعت سے ملوں گا۔‘‘
آج جمعرات کے دن، شام کو سورج غروب ہوتے وقت عمار رضی اللہ عنہ نے ایک گھونٹ دودھ مانگا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا:
((اِنَّ آخِرَ شَرْبَۃٍ تَشْرَبْہَا مِنَ الدُّنْیَا شَرْبَۃُ لَبَنٍ۔))[2]
’’دنیا کا جو آخری گھونٹ تم پیو گے وہ دودھ کا گھونٹ ہوگا۔‘‘
پھر آگے بڑھتے گئے اوراپنے ساتھ علم بردار جنگ ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص الزہری کو بھی جوش دلاتے گئے اور وہ وقت آگیا کہ دونوں شہید کردیے گئے، واپس لوٹ کر نہ آئے، اللہ ان دونوں پر اپنے رحمت نازل فرما اور ان سے خوش ہوجا۔[3]
لیلۃ الہریر، جمعہ کا دن:
اسی رات جنگ نے سختی اور قتل و خون ریزی نے ایسا رخ اختیار کرلیا کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں تھی، اہل عراق کا حملہ پوری طاقت اور جوش و خروش سے تھا، وہ اہل شام کو پیچھے کرنے میں کامیاب ہوگئے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے خوب سخت لڑائی لڑی اور مرمٹنے کی قسم کھا لی۔[4]
بیان کیا جاتاہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اس دن اپنی فوج کو شام میں صلاۃ خوف پڑھائی۔[5] اور امام شافعی کا قول ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آیا ہے کہ انھوں نے لیلۃ الہریر میں صلاۃ خوف پڑھی۔[6]
آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے والا راوی کہتا ہے کہ ہم نے مسلسل تین دن اور تین راتیں قتال کیا، یہاں تک کہ نیزے ٹوٹ گئے، تیر ختم ہوگئے، پھر ہم نے شمشیر زنی کے لیے چلے اور آدھی رات تک پٹکا کھیلتے رہے، پھر ایک دوسرے کی گردنیں پکڑ کر پٹخا پٹخی ہوئی، جب تلواروں کی دھاریں درانتی کی طرح ہوگئیں تو ان کے دستوں سے مار پیٹ ہوئی، صرف کھچ کھچاہٹ اور شور و ہنگامے کی آوازیں آرہی تھیں ، پھر ہم نے ڈھیلوں اور پتھروں سے ایک دوسرے کو مارنا شروع کیا، دانت کاٹے، مونہوں کو نوچا، یہاں تک کہ جمعہ کی صبح طلوع ہوگئی، سورج نکل چکا تھا، لیکن معرکہ کے گرد وغبار کی وجہ سے وہ نظر نہ آرہاتھا، پرچم اور عَلَم گر چکے تھے، فوج تھکاوٹ سے چور تھی، ہاتھوں میں
[1] تاریخ الطبری (۵؍۶۵۲)۔
[2] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍۳۰۲، ۳۰۳) اس کی سند منقطع ہے۔
[3] تاریخ الطبری (۵؍۶۵۳)۔
[4] المستدرک (۳؍۴۰۲) امام ذہبی نے کہا: یہ روایت ضعیف ہے۔
[5] السنن الکبریٰ؍ البیہقی (۳؍۲۵۲) شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بیہقی نے اسے صیغہ تمریض سے بیان کیا ہے۔ دیکھئے: الإرواء (۳؍۴۲)
[6] تلخیص الحبیر (۲؍۷۸)۔