کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 687
اورآخرت کی کامیابی تھی وہ جنت میں جائے گا۔[1] آج کے دن ہر ایک نے دوسرے پر حملہ کیا، لیکن کوئی کسی پر غالب نہ ہوا اور شام ہوجانے تک کسی کو میدان چھوڑ کر بھاگتے نہیں دیکھا گیا، شام کے وقت علی رضی اللہ عنہ میدان جنگ کی طرف نکلے، شام کے مقتولین پر نگاہ ڈالی اور اپنے رب سے دعا کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ مجھے اوران لوگوں کو بخش دے۔[2]
دوسرا دن:
روایات میں ہے کہ جمعرات کے دن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ غلس میں فجر کی نماز پڑھی اور حملہ کرنے کے لیے مکمل تیار ہوگئے، فوجی قیادت میں معمولی تبدیلی بھی کی، عبداللہ بن بدیل الخزاعی رضی اللہ عنہ کو میسرہ سے میمنہ پر اور اشعث بن قیس الکندی رضی اللہ عنہ کو میمنہ سے مسیرہ پر مقرر کیا۔[3]
دونوں طرف کی فوجیں ایک دوسرے کی طرف آگے بڑھیں اورپچھلے روز کے بالمقابل آج زیادہ سخت انداز میں ایک دوسرے میں گتھم گتھا ہوگئیں ، اہل عراق آگے بڑھنے لگے اوراہل شام پر اپنی برتری کا مظاہرہ کیا، عبداللہ بن بدیل رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے میسرہ کو جس پر حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ مقرر تھے توڑنے میں کامیاب ہوگئے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے شہباء نامی دستہ کی طرف آگے بڑھے، بے مثال بہادری اور جوش کا مظاہرہ کیا، عراق کی پوری فوج اس جزئی پیش رفت کے ساتھ لگ گئی اور معرکہ اس قدر دل دہلا دینے والا تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ میدان قتال چھوڑنے کو سوچنے لگے، لیکن آپ نے صبر کیا ۔
پھر آپ نے اپنے ’’شہباء‘‘دستے کو جوش دلایا اور وہ عبداللہ بن بدیل رضی اللہ عنہ کو شہید کردینے میں کامیاب ہوگیا، اب ان کی جگہ میمنہ کی قیادت اشتر کرنے لگا، ادھر اہل شام نے خود کو اور مضبوط کرلیا، یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے موت پر بیعت کرلی اور نہایت سختی و عزیمت کے ساتھ دوبارہ زبردست حملہ کیا، اس جملے میں ان کے بعض نمایاں افراد قتل ہوگئے مثلاً ذو الکلاع الحمیری، حوشب اور عبیداللہ بن خطاب رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا اور جنگ کا پانسا پلٹ گیا، کامیابی شامی فوجی کے جھولی میں جاگری، شامی فوج نے پیش رفتی کا مظاہرہ کیا اور عراقی فوج پیچھے ہٹنے لگی، اہل عراق کی لاشیں گرنے لگیں ، لوگ زخمی ہونے لگے، علی رضی اللہ عنہ نے جب اپنی فوج کو پیچھے ہٹتا دیکھا تو انھیں آواز دینے لگے، جوش دلایا اور سخت لڑائی لڑی، شامی قلب تک جس پر ربیعہ مامور تھے، گھس گئے، شامی فوج کی غیرت جاگ اٹھی اور انھوں نے اپنے امیر خالد بن معتمر سے مرمٹنے کے لیے بیعت کرلی، یہ سب منجھے ہوئے جنگ جو تھے۔[4]
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی جماعت میں شامل عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی عمر چورانوے (۹۴) سال سے متجاوز ہوچکی تھی،
[1] سنن سعید بن منصور (۲؍۳۴۴، ۳۴۵) اس کی سند ضعیف ہے۔
[2] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍۲۹۷) اس کی سند ضعیف ہے۔
[3] تاریخ الطبری (۵؍۶۳۰)۔
[4] الإصابۃ (۱؍۴۵۴) انساب الاشراف (۲؍۵۶) اس کی سند قتادہ تک حسن ہے لیکن یہ روایت مرسل ہے۔