کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 686
میں موجود تھے۔ ذرہوں اور تلواروں سے مسلح فوجیوں پر مشتمل تھے، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ شام کے تمام شہ سواروں کے قائد تھے، ذوالکلاع الحمیری رضی اللہ عنہ میمنہ پر اہل یمن کے اور حبیب بن مسلمہ الفہری رضی اللہ عنہ میسرہ پر اہل مصر کے امیر تھے، مخارق بن الصباح الکلاعی پرچم بردار تھے۔[1] اسلامی فوجیں اب ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھیں ، ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ افق نظر نہ آتا تھا۔
عرب کے ایک شاعر کعب بن جعیل تغلبی[2] نے جب بدھ کی شام ہی کو کل کی لڑائی کے لیے لوگوں کو اپنے تیر درست کرتے اور تلواریں تیز کرتے دیکھا تو آپ نے یہ اشعار کہے:
أَصْبَحَتِ الْاُمَّۃُ فِیْ اَمْرٍ عَجَبْ وَالْمُلْکُ مَجْمُوْعٌ غَدًا لِمَنْ غَلَبْ
’’امت عجیب صورت حال سے دوچار ہے اور حکومت کل اس کی ہوگی جو غالب آئے۔‘‘
فَقُلْتُ قَوْلًا صَادِقًا غَیْرَ کَذِبْ اِنَّ غَدًا تَہْلَکُ اَعْلَامُ الْعَرَبْ[3]
’’میں نے سچی بات کہی جس میں جھوٹ کا شائبہ نہیں کہ کل عرب کے نامور (بہادر) ہلاک ہوں گے۔‘‘
بعض ضعیف روایات میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر میں خطبہ دیا، انھیں جو پیش قدمی اور بکثرت ذکر الٰہی کی تلقین کیا۔[4] یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے پاس گئے اور انھیں صف بندی کا حکم دیا۔[5]
بہرحال ان روایات کو تسلیم کرنے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے، کیونکہ ایسے وقت میں ہرقائد اپنے لشکر کو ابھارتا ہے، اسے جوش دلاتا ہے اور ہر وہ چیز جو کامیابی کا سبب بن سکے اسے اپناتا ہے۔
اب دونوں لشکر خطرناک لڑائی کی شکل میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوچکے تھے اور لڑائی پوری تیزی کے ساتھ سورج غروب ہونے تک جاری رہی، اگر درمیان میں رکی تو صرف نماز کے لیے جس میں ہر فریق اپنے لشکر گاہ میں جاکر نماز پڑھتا، میدان میں طرفین کے مقتولین کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں ، علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کے ایک آدمی نے علی رضی اللہ عنہ سے جب وہ نماز سے واپس ہو رہے تھے پوچھا: اے امیر المومنین! آپ ہمارے اوران کے مقتولین کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ہم میں اور ان میں جو بھی قتل کردیا گیا اور اس کی نیت اللہ کی رضا جوئی
[1] تاریخ خلیفہ بن خیاط ص (۱۳۹) اس کی سند حسن ہے۔
[2] اپنے زمانے میں تغلب کے مشہور شاعر رہے، آپ مخضرمی ہیں ، معاویہ کے ساتھ صفین میں شرکت کی، آپ معاویہ بن ابو سفیانؓ اور اہل شام کے شاعر تھے۔ دیکھئے: الأعلام ؍الزرکلی (۶؍۱۸۰)
[3] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۷۳) تاریخ طبری (۵؍۶۲۶)۔
[4] تاریخ طبری (۵؍۶۲۲) بسند أبی مخنف۔
[5] طبقات ابن سعد (۴؍۲۵۵) بسند واقدی۔