کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 685
ابودرداء اور ابوامامہ رضی اللہ عنہا دوصحابہ نے فریقین میں مصالحت کرانے کی خاص طور پر کوششیں کیں ، لیکن وہ دونوں بھی مذکورہ اسباب کی وجہ سے اپنی مہم میں ناکام رہے اور دونوں کا ساتھ چھوڑ کر الگ ہوگئے۔[1] اسی طرح کبار تابعین میں سے مسروق بن اجدع رحمہ اللہ نے ان دونوں کو سمجھایا اور ڈرایا، اور جب وہ نہ مانے تو آپ بھی لڑائی سے کنارے ہوگئے۔[2] جنگ کا آغاز محرم کا مہینا گزر جانے کے بعد حالات پھر ویسے ہی ہوگئے جیسے ذی الحجہ کے مہینا میں تھے، یعنی چھوٹے چھوٹے فوجی دستوں کی کارروائی اور انفرادی مبارزت کا دور شروع ہوگیا، طرفین نے یہ انداز جنگ محض اس خطرہ کے پیش نظر اختیار کیا تھا کہ کہیں مکمل جنگ نہ شروع ہوجائے، اس طرح صفر کا پہلا ہفتہ گزر گیا، اس تاریخ تک طرفین کی طرف سے مذکورہ جنگی چالوں اور چھڑپوں کی تعداد ستر سے زیادہ ہوچکی تھی اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ تقریباً اس طرح کے نوے (۹۰) واقعات پیش آچکے تھے۔[3] لیکن تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق وہ وقت آگیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر میں اعلان کردیا کہ کل بروز بدھ مکمل جنگ لڑی جائے گی اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی اس کی اطلاع دے دی۔[4] اس دن پوری رات لوگوں نے اپنے ہتھیاروں کو تیز اور درست کیا، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اسلحہ خانہ سے اسلحہ نکال کر ان لوگوں کو دینے لگے جن کے اسلحوں کی دھاریں کند ہوگئی تھیں ، آپ لوگوں کو جنگ میں مردانہ وار لڑنے کی تلقین کر رہے تھے۔[5] اس طرح فریقین کے پورے لشکر نے پوری رات باہمی صلاح و مشوروں ، قائدین کی تنظیم اور علم برداروں کی تعیین میں گزار دی۔ پہلا دن : بدھ کے دن جب دونوں فوجوں نے صبح کی تو ان کی صف بندیاں منظم ہوچکی تھیں ۔بڑی بڑی جنگوں کی ترتیب پر اس جنگ کی بھی ترتیب ہوئی، قلب، میمنہ اور میسرہ سب کا تعین ہوا۔ علی رضی اللہ عنہ کی فوج کی شکل اس طرح تھی۔[6] علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ قلب میں ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میسرہ پر اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما پاپیادہ فوج پر تھے، محمد بن الحنفیہ رحمہ اللہ علم بردار تھے، ہشام بن عتبہ (المرقال) لواء کو اٹھائے ہوئے تھے اور اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ میمنہ پر تھے۔ جب کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج کی تقسیم اس طرح تھی کہ آپ بحیثیت امیر لشکر ایک بلند ٹیلے پر شہباء نامی دستے
[1] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۷۰)۔ [2] سیر أعلام النبلاء (۴؍۶۷) اس کی سند مذکور نہیں ہے۔ [3] الأبناء بتواریخ الخلفاء ص (۵۹) صفین ص (۲۰۲) شذرات الذہب (۱؍۴۵)۔ [4] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۷۳)۔ [5] سنن سعید بن منصور (۲؍۲۴۰) اس کی سند ضعیف ہے [6] تاریخ خلیفہ بن خیاط ص (۱۳۹) اس کی سند حسن ہے۔