کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 684
اس طرح معاویہ رضی اللہ عنہ ایک بھاری بھرکم فوج لے کر چل پڑے، فوجیوں کی تعداد کے سلسلے میں روایات مختلف ہیں اور ساری روایات سنداً منقطع ہیں ۔
۷۔ پانی پر جنگ:
دوسری طرف سے جب علی رضی اللہ عنہ کا لشکر صفین میں اترا، جہاں معاویہ رضی اللہ عنہ پہلے ہی پڑاؤ ڈال چکے تھے، تو وہاں آپ کوکوئی کشادہ اور ہموار زمین اتنی نہ مل سکی کہ آپ کی فوج کے لیے کافی ہو، اس لیے آپ نے کسی قدر سخت اورپتھریلی زمین پر اپنی فوج کا پڑاؤ ڈالا، کیونکہ وہاں کل بیشتر زمین سنگلاخ تھیں ۔[1]
عراقی فوج نے جب دیکھا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے پانی بند کردیا ہے تو وہ گھبرا گئی اور بعض لوگ علی رضی اللہ عنہ کے پاس اس کی شکایت لے کر گئے۔ علی رضی اللہ عنہ نے اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کو دو ہزار آدمیوں کے ساتھ لیے بھیجا، فریقین کے درمیان یہ پہلی جھڑپ تھی جس میں اشعث رضی اللہ عنہ بھاری پڑے اور پانی پر قبضہ کرلیا۔[2]
۸۔صلح کی کوششیں اور جنگ بندی کے آثار:
ماہ محرم جونہی شروع ہوا فریقین نے صلح کی امیدیں لے کر ایک دوسرے سے گفتگو کا دور شروع کردیا، تاکہ مسلمانوں کا خون محفوظ رہے، یہ پورا مہینا گفتگو کے ادوار اور مراسلات میں گزر گیا، واضح رہے کہ اس پورے مہینا مراسلات کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والی روایت ضعیف سندوں سے وارد ہے۔[3] جسے شہرت مل گئی ہے تاہم اس کی ضعف کی وجہ سے امکان کی نفی نہیں کی جاسکتی۔
مراسلت کا آغاز امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہوا تھا، آپ نے بشیر بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ ، سعید بن قیس ہمدانی اور شیث بن ربعی تمیمی کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اورجس طرح اس سے قبل آپ نے انھیں مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہو جانے اور اپنے ہاتھوں پر بیعت کرلینے کی دعوت دی تھی، اس مرتبہ بھی وہی دعوت دی، لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس مرتبہ بھی سابقہ جوابوں کی طرح جواب دیا یعنی سب سے پہلے قاتلین عثمان ہمارے حوالے کیے جائیں یا ان سے قصاص لیا جائے، پھر ہم بیعت میں داخل ہوں گے۔ اس جواب کے متعلق علی رضی اللہ عنہ کا کیا موقف تھا اس کی وضاحت ہمارے سامنے آچکی ہے۔[4]
اسی طرح طرفین کے مقتدر علماء نے جو کہ بڑی تعداد میں تھے، صفین کے ایک کنارے پڑاؤ ڈال رکھا تھا، انھوں نے دونوں کے درمیان صلح کی مختلف کوششیں کیں ، لیکن سب ناکام رہیں ، کیونکہ فریقین کا کوئی بھی سربراہ اپنے موقف سے ہٹنے کو تیار نہ تھا۔[5]
[1] خلافۃ علی بن أبی طالب ؍عبدالحمید ص (۱۹۴)۔
[2] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍۲۹۴) بسند حسن۔
[3] تاریخ الطبری (۵؍۶۱۲، ۶۱۳) خلافۃ علی ص (۱۹۹)۔
[4] تاریخ الطبری (۵؍۶۱۳) خلافۃ علی بن أبی طالب (۱۹۹)۔
[5] تاریخ الطبری (۵؍۶۱۴)۔