کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 683
۶۔ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا صفین کے لیے نکلنا:
سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان کو مات دینے میں بہت مستعد تھے، آپ ان مصری بلوائیوں کو مدینہ سے لوٹتے ہوئے گھیرنے میں کامیاب ہوگئے تھے جنھوں نے مدینہ پر ہلہ بولا تھا اور عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرکے واپس لوٹ رہے تھے، انھیں میں سے ایک ابوعمرو بن بدیل الخزاعی بھی تھا۔[1] مزید برآں مصر میں آپ کے مویدین و مددگار بھی تھے جو عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کے بدلے کے طلب گار تھے۔ مصریوں میں سے ’’خربتا‘‘ والے جو کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہم خیال تھے انھوں نے اپنے مقابل میں محمد بن ابوحذیفہ کو ۳۶ھ کی مختلف جھڑپوں میں شکست بھی دی تھی، اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ مدینہ پر ہلہ بولنے والے شاطر ذہن اور نمایاں کردار ادا کرنے والے سازشی مصریوں کو بھی ادھر دبوچا تھا، مثلاً: عبدالرحمن بن عدیسی، کنانہ بن بشر اور محمد بن ابوحذیفہ وغیرہ اس میں پیش پیش تھے، آپ نے انھیں فلسطین میں قید کردیا تھا اور پھر ذی الحجہ ۳۶ھ میں انھیں تہ تیغ کیا تھا، یہ اسی وقت کی بات ہے جب کہ آپ ابھی صفین کے لیے نہیں نکلے تھے۔[2]
بہرحال جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ عراقی فوج مجھ سے جنگ کے لیے حرکت میں آچکی ہے تو آپ نے شام کی سرکردہ شخصیتوں میں سے اپنے مشیروں کو بلایا اور ان کے درمیان تقریر کرتے ہوئے کہا: علی ( رضی اللہ عنہ ) اہل عراق کو لے کر تمھارے خلاف جنگ کے لیے متحد ہوچکے ہیں … ذوالکلاع الحمیری رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا: آپ ہمیں حکم دیں ، ہم اسے انجام دیں گے۔[3] اہل شام معاویہ رضی اللہ عنہ پر اس بات پر بیعت کرچکے تھے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بہرحال مطالبہ جاری رکھا جائے اگرچہ خون ریزی ہی کیوں نہ ہو[4]4 عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ لشکر کے انتظام وانصرام اور پرچموں کے باندھنے میں لگ گئے، پھر لشکر میں خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور انھیں خوب جوش دلایا۔ تقریر کرتے ہوئے کہا: اہل عراق نے اپنے اتحاد کو پارہ پارہ، اپنی قوت کو کمزور اور اپنی تلواروں کی دھاروں کو توڑ دیا ہے۔ اہل بصرہ بھی علی کے خلاف ہیں ، کیونکہ انھوں نے ان کے اعزاء وغیرہ کو مار ڈالا ہے، جنگ جمل کے موقع پر دونوں یعنی اہل بصرہ اور اہل کوفہ کے صنادید ایک دوسرے کو فنا کے گھاٹ اتار چکے ہیں اور اب وہ علی نہایت تھوڑی سی جماعت لے کر لڑنے کے لیے چل نکلے ہیں ۔ اس میں وہ لوگ بھی ہیں جنھوں نے تمھارے خلیفہ عثمان کو قتل کیا ہے۔ اے لوگو! اپنے حق کے مطالبہ میں اللہ سے ڈرو، کہیں اسے ضائع نہ کردو اور اپنے خون کے بارے میں خبردار رہو کہیں یہ بے کار رائیگاں نہ جائے۔[5]
[1] تاریخ الطبری (۵؍۶۰۴)۔
[2] خلافۃ علی ؍ عبدالحمید ص (۱۹۱)۔
[3] الإصابۃ (۱؍۴۸۰) خلافۃ علی ص (۱۹۱)۔
[4] أنساب الأشراف (۲؍۵۲) اس کی سند منقطع ہے، خلافۃ علی ص (۱۹۲)
[5] تاریخ الطبری (۵؍۶۰۱) اس کی سند منقطع ہے۔