کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 682
واقعہ کی تفصیل لے کر واپس آئے تو اشتر نے کہا: اے امیر المومنین کیا میں نے آپ کو منع نہیں کیا تھا کہ جریر کو نہ بھیجیں ؟ اگر آپ مجھے بھیجتے تو معاویہ جو بھی عذر کا دروازہ کھولتے میں اسے بند ہی کردیتا۔جریر رضی اللہ عنہ نے اشتر سے کہا: اگر وہاں میری جگہ تم ہوتے تو عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کے بدلے وہ سب تمھیں قتل کردیتے، اس نے کہا: اگر آپ نے مجھے بھیجا ہوتا تو معاویہ کا جواب مجھے خاموش نہ کرپاتا اور میں انھیں سوچنے کا موقع نہ دیتا اور سنو! اگر تمھارے بارے میں امیر المومنین نے میری بات مان لی ہوتی تو تم کو اور تم جیسے دوسرے لوگوں کو اس وقت تک قید میں رکھتے جب تک کہ اس امت کا معاملہ درست نہ ہوجاتا۔ جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ غصہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور قرسیسیاء میں جاکر اقامت گزیں ہوگئے اور وہاں سے معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنی اور اشتر کی گفت و شنید سے باخبر کیا، پھر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خط کے ذریعے سے انھیں اپنے پاس بلالیا۔[1] اس طرح اشتر جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی جو کہ قرقیسیاء اور دیگر علاقوں کے امیر رہ چکے تھے اور اپنے قبیلہ بُجَیلہ کے سردار تھے، انھیں بھگانے اور علی رضی اللہ عنہ سے جدائی پر مجبور کرنے کا سبب بنا، حالانکہ آپ وہی جریر بن عبداللہ البجلی صحابی ہیں جن کا بیان ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ مجھ پر پڑی آپ مسکرائے اور فرمایا: ((سَیَدْخُلُ عَلَیْکُمْ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ خَیْرِ ذِي یَمَنٍ عَلَی وَجْہِہِ مَسْحَۃُ مَلَکٍ۔))[2] ’’اس دروازے سے تمھار پاس یمن کا ایک بہترین آدمی آنے والا ہے، اس کے چہرے پر فرشتوں جیسی سادگی ہے۔‘‘ ۵۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی شام روانگی: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے جنگ شام کے لیے مکمل تیاری کرلی، لوگوں کو اس میں شرکت کے لیے کہلا بھیجا۔[3] اور بہت بڑی فوج مسلح کی، اس کی تعداد کتنی تھی اس سلسلے میں روایات مختلف ہیں ۔ ساری روایات ضعیف ہیں ۔[4]صرف ایک روایت کی سند حسن درجہ ہے کی جس میں ہے کہ آپ کے ساتھ پچاس ہزار کی مسلح فوج تھی۔[5] مقام نخیلہ جو کہ اس وقت کوفہ سے دو میل کے فاصلہ پر تھا، وہاں پر آپ کی فوج اکٹھا ہوئی، پھر عراق کے مختلف صوبوں اور علاقوں سے دیگر قبائل کی فوجیں آآکر وہاں جمع ہوئیں ۔[6]
[1] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۶۵)۔ [2] مسند أحمد (۴؍۸۴) باب فضل جریر بن عبداللہ البجلی۔ [3] الإصابۃ (۱؍۱۲۳، ۱۲۴) بحوالہ: الحاکم بسند حسن۔ [4] بعض روایات میں ڈیڑھ لاکھ (البدایۃ والنہایۃ ۷؍۲۶) بعض میں ایک لاکھ بیس ہزار (المعرفۃ و التاریخ ۳؍۱۳) بسند منقطع، اور بعض میں ۹۰ ہزار کا ذکر ہے۔ تاریخ خلیفۃ بن خیاط ص (۱۹۳) [5] تاریخ خلیفۃ بن خیاط ص (۱۹۳) اس کی سند حسن ہے۔ [6] خلافۃ علی بن أبی طالب ؍ عبدالحمید ص (۱۸۸)۔