کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 680
دیے، پھر آپ نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو بلایا اورانھیں وہ کپڑا دے کرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا، چنانچہ وہ قمیص اور آپ کا خط لے کر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس روانہ ہوگئے۔[1] ۲۔معاویہ رضی اللہ عنہ کی عدم بیعت کے اسباب و محرکات: معاویہ رضی اللہ عنہ عہد فاروقی اور عہد عثمانی میں شام کے گورنر تھے، جب علی رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی تو انھیں معزول کرکے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو وہاں کا گورنر بنانا چاہا، لیکن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے معذرت کردی، علی رضی اللہ عنہ نے ان کی معذرت پر ان کے بدلے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو بھیجا، لیکن ابھی آپ شام کی سرحد وادی القریٰ میں پہنچے ہی تھے کہ وہیں سے آپ کو واپس لوٹنا پڑا، کیونکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا ایک شہ سوار دستہ جس کی قیادت حبیب بن مسلمہ الفہری کر رہے تھے، اس نے آپ کو پکڑ لیا اور کہا: اگر تمھیں عثمان نے بھیجا ہے تو خوش آمدید اور اگر کسی دوسرے نے بھیجا ہے تو یہیں سے واپس چلے جاؤ۔[2] معاویہ رضی اللہ عنہ اور باشندگان شام نے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت کرنے سے انکار کردیا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ علی رضی اللہ عنہ پہلے قاتلین عثمان سے قصاص لیں پھر یہ لوگ بیعت میں شامل ہوں گے۔[3] اور کہا: جو شخص قاتلوں کو پناہ دے رہا ہو ہم اس پر بیعت نہیں کرتے۔[4] ۳۔اہل شام سے جنگ کے لیے علی رضی اللہ عنہ کی فوجی تیاری اور اس پر حسن رضی اللہ عنہ کا اعتراض: معاویہ رضی اللہ عنہ کے جوابی تحریریں پڑھنے کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے اہل شام سے جنگ کرنے کی ٹھان لی، مصر کے امیر قیس بن سعد کو لکھا کہ لوگوں کو جنگ کے لیے تیار کریں ، کوفہ میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کا نام بھی اسی طرح کا خط لکھا اور عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کو بھی یہی کہلوا بھیجا، خود لوگوں کو خطاب کیا، انھیں جنگ پر ابھارا، فوجی تیاری کا پختہ عزم کرلیا، پھر مدینہ میں قثم بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنا نائب بنا کر وہاں سے نکل پڑے، آپ اس بات کے لیے عازم تھے کہ جس نے بھی معاویہ کی بات مانی اور میری اطاعت نہ کی اور لوگوں کے ساتھ میری بیعت میں شرکت نہ کی میں اس سے ضرور قتال کروں گا، ٹھیک اسی موقع پر آپ کے صاحبزادے حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ کے پاس آئے اور کہا: اے ابا محترم! یہ سب چھوڑیے، اس میں مسلمانوں کی خون ریزی ہوگی اور ان میں اختلاف بڑھیں گے، لیکن علی رضی اللہ عنہ نے ان کی ایک نہ سنی اور جنگ کے ارادے پر قائم ہی رہے، آپ نے فوج کو مرتب کیا، جنگ کا علم محمد بن الحنفیہ کے ہاتھ میں دیا، ابن عباس رضی اللہ عنہما کو میمنہ اور عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کو میسرہ پر مقرر کیا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمرو بن سفیان بن عبدالاسد کو میسرہ پر مقرر کیا۔ مقدمہ پر ابولیلیٰ عمر بن جراح یعنی ابوعبیدہ کے بھتیجے کو رکھا، اور قثم بن عباس رضی اللہ عنہما کو مدینہ
[1] تاریخ الإسلام؍ عہد الخلفاء الراشدین ص (۵۳۹)۔ [2] تاریخ الطبری (۵؍۴۶۶)۔ [3] البدایۃ والنہایۃ (۱۷؍۱۲۹)۔ [4] العواصم من القواصم ص (۱۶۲)۔