کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 679
جنگ جمل پر احساس ندامت: امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ اسی طرح بیشتر گزرے ہوئے مسلمانوں نے اپنی باہمی قتال و جدال پر احساس ندامت ہوتی، چنانچہ طلحہ رضی اللہ عنہ نادم ہوئے اور زبیر و علی رضی اللہ عنہما وغیرہ بھی نادم ہوئے۔ جنگ جمل کے دن ان لوگوں نے لڑائی کا ارادہ نہیں کیا تھا، پس اچانک اور غیرارادی طور پر یہ حادثہ رونما ہوا تھا۔‘‘[1]اس کے دلائل یہ ہیں کہ: ٭ جب امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ تلواریں لوگوں کو کاٹ رہی ہیں تو فرمایا: کاش کہ میں آج سے بیس سال پہلے مرگیا ہوتا۔[2] ٭ نعیم بن حماد اپنی سند سے حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے سلیمان بن صرد سے کہا: جب جمل کی لڑائی شدت اختیار کر گئی تو میں نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اورکہنے لگے: اے حسن! میں چاہتا ہوں کہ کاش آج سے بیس سال قبل مر گیا ہوتا۔[3] ٭ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے کچھ اور کرنا چاہا تھا، لیکن یکے بعد دیگرے حادثات پیش ہوتے گئے اورآپ کو ان سے نکلنے کا موقع نہ مل سکا۔[4] ٭ سلیمان بن صرد، حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ جب علی رضی اللہ عنہ کی نگاہ تلواروں پر پڑی کہ وہ لوگوں میں اتر چکی ہیں تو آپ کو کہتے ہوئے سنا: اے حسن! کیا یہ سب ہم میں ہو رہا ہے؟ اے کاش کہ اس سے بیس سال قبل اور بعض روایات میں ہے کہ چالیس سال قبل مرگیا ہوتا۔[5] جنگ صفین ۳۷ھ معرکے کا پس منظر ۱۔ام المؤمنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا نے، عثمان رضی اللہ عنہ کی قمیص دے کر نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو معاویہ رضی اللہ عنہ اور شام والوں کے پاس بھیجا: جب سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے تو ام المومنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا نے عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کو پیغام بھیجا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا وہ کپڑا جس میں آپ کی شہادت ہوئی ہے، میرے پاس بھیج دو، ان لوگوں نے خون میں لت پت آپ کی وہ قمیص اور داڑھی کے اکھاڑے ہوئے بال ام المومنین اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا
[1] المنتقیٰ من منہاج الاعتدال فی نقض کلام أہل الرفض و الاعتزال ؍ محی الدین الخطیب ص (۲۲۲)۔ [2] الفتن؍ نعم بن حماد (۱؍۸۰)۔ [3] ایضًا۔ [4] ایضًا (۱؍۸۱)۔ [5] احداث و احادیث فتنۃ الہرج ص (۲۱۷)۔