کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 678
سے جدا کر رکھیں ۔ علی رضی اللہ عنہ کے اس مشورہ سے ایک اصولی بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ یہ کہ دو برائیوں میں سے بڑی برائی کو دور کرنے کے لیے چھوٹی برائی کا ارتکاب کیا جاسکتا ہے۔[1] امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جدا کردیں ، آپ اس نتیجہ پر اس وقت پہنچے جب دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سخت الجھن سے دوچار ہیں ، بنابریں آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تسکین خاطر کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کے لیے مکمل خیرخواہی کا ثبوت دیا۔[2] دوسری طرف علی رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کوئی ایک حرف بھی ایسا نہیں استعمال کیا جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہو کہ آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے اخلاق و کردار کو ہدف ملامت بنایا ہو، یا آپ کی شان میں گستاخی کی ہو، آپ نے ایک طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ مشورہ دیا کہ اللہ نے آپ کے لیے راستہ کھول رکھا ہے، تو دوسری طرف اس کے فوراً بعد خیرخواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: اورآپ باندی سے پوچھ لیں وہ آپ کو حقیقت حال بتائے گی۔[3] گویا آپ نے جدا کرنے سے پہلے حقیقت حال معلوم کرلینے کا مشورہ دیا، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی سے پوچھا جو کہ بیشتر اوقات میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ رہتی تھی، اور اس نے بتایا اور یقین دلایا کہ میں عائشہ کے بارے میں صرف خیر ہی جانتی ہوں ۔ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دن باہر نکلے، اور عبداللہ بن ابی سے بدلہ لینے پر مسلمانوں کو ابھارتے ہوئے کہا: ((یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِیْنَ مَنْ یَعْذُرُنِيْ مِنْ رَجُلٍ بَلَغَنِيْ أَذَاہُ فِيْ أَہْلِ بَیْتِيْ، فَوَاللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلَی أَہْلِيْ إِلَّا خَیْرًا۔)) [4] ’’اے مسلمانو! کون ہے جو اس شخص سے میرا بدلہ لے جس نے میرے گھر والوں (بیوی) کے بارے میں مجھے تکلیف پہنچائی ہے، اللہ کی قسم! میں اپنی بیوی میں بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں دیکھتا۔‘‘ اگر غور کیا جائے تو علی رضی اللہ عنہ کا مشورہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مفاد میں نظر آتا ہے، اس لیے کہ ان کے مشورہ کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی سے دریافت کیا تو اپنی بیوی کے بارے میں آپ کو پہلے سے جس خیر کی توقع تھی اس میں مزید اطمینان و یقین حاصل ہوگیا۔[5] ایسی بات ہرگز نہیں ہے کہ واقعۂ افک میں علی رضی اللہ عنہ کے موقف نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو کبیدہ خاطر کیا ہو اور آپ اس کی وجہ سے علی پر ناراض رہی ہوں ، یا ان کے خلاف کینہ و نفرت کی بنیاد پر انھیں قصداً قتل عثمان میں ملوث کردیا ہو۔اور پھر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ آپ کے خلاف علم بغاوت لے کر اٹھ کھڑی ہوئی ہوں ، جیساکہ روافض کی جھوٹی روایات سے متاثر بہت سے مولفین کا خیال ہے۔
[1] دور المرأۃ السیاسی ص (۴۶۲)۔ [2] شرح النووی علی صحیح مسلم (۵؍۶۳۴)۔ [3] صحیح البخاری، حدیث نمبر (۴۷۸۶)۔ [4] صحیح البخاری، حدیث نمبر (۴۷۸۶)۔ [5] دور المرأۃ السیاسی ص (۴۶۲)۔