کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 677
ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوگئے، آئندہ ہمارے ان اختلافات کے باعث کوئی شخص ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرے، اللہ کی قسم! میرے اور علی کے درمیان شروع سے کوئی اختلاف کبھی نہ تھا، البتہ عورت اور اس کے سسرالی رشتہ داروں کے درمیان جو بات عام طور سے ہوا کرتی ہے وہی تھی۔ فی الحقیقت وہ میرے نزدیک نیک اور اچھے آدمی ہیں ، اس کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’اے لوگو! اللہ کی قسم ام المومنین نے سچ فرمایا اور اچھی بات کہی، میرا اوران کا اختلاف واقعتا اسی قسم کا تھا، اور عائشہ رضی اللہ عنہا دنیا و آخرت میں تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں ۔‘‘
بہرحال آپ رضی اللہ عنہا نے شروع رجب ۳۶ھ بروز ہفتہ بصرہ سے کوچ کیا، کئی میل تک علی رضی اللہ عنہ انھیں چھوڑنے آئے اوراپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ ایک دن تک ام المومنین کا ساتھ دینے کے بعد واپس آئیں ۔[1] عائشہ رضی اللہ عنہا کے تئیں علی رضی اللہ عنہ کے اس کریمانہ برتاؤ سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو کتنے عمدہ انداز میں نبھایا کہ ((اِنَّہُ سَیَکُوْنُ بَیْنَکَ وَ بَیْنَ عَائِشَۃَ أَمْرٌ)) تمھارے اور عائشہ کے درمیان تلخی ہوسکتی ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے حیرت سے پوچھا: اے اللہ کے رسول مجھ سے اور ان سے؟ آپ نے فرمایا: نعم، ہاں ۔ علی رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا: میرے اوران کے درمیان؟ آپ نے فرمایا: نعم، ہاں ۔ تب علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول تب تو میں سب سے بدبخت نکلا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا، وَ لـٰکِنْ إِذَا کَانَ ذَلِکَ فَارْدُدْہَا إِلَی مَأْ مَنِہَا۔)) [2]
’’نہیں ، جب وہ صورت پیش آجائے گی تو عائشہ کو ان کے گھر تک پہنچا دینا۔‘‘
واضح رہے کہ اس مقام پر کچھ لوگ یہ کہہ کر غلطی کر بیٹھتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ واقعۂ افک میں علی رضی اللہ عنہ کے موقف سے کبیدہ خاطر تھیں اور اس کا انتقام لینا چاہتی تھیں ، کیونکہ جب منافقین نے آپ رضی اللہ عنہا کی دامن عزت کو نشانہ بنایا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جدا کرنے کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا تھا، تو آپ نے مشورہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ نے آپ کے لیے راستہ کھول رکھا ہے، ان کے علاوہ بہت سی عورتیں ہیں ، اوراگر آپ باندی سے دریافت کریں تو وہ آپ کو سچ سچ بتائے گی۔[3]
حالانکہ آپ کا یہ مشورہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی رنجش کی بناپر نہ تھا، بلکہ آپ نے قصداً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو کو ترجیح دی تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی غیرت مند انسان تھے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک بے ہودہ تہمت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدید رنج و غم جھیل رہے ہیں ، تو آپ نے سوچا کہ فوری طور پر عائشہ رضی اللہ عنہا کی جدائی آپ کے رنج و الم کو ہلکا کرسکتی ہے، اس لیے مناسب ہے کہ جب تک عائشہ کی براء ت ثابت نہ ہو جائے انھیں اپنی زوجیت
[1] تاریخ الطبری (۵؍۵۸۱)۔
[2] مسند أحمد (۶؍۳۹۳) اس کی سند حسن ہے۔
[3] صحیح البخاری، حدیث نمبر (۴۷۸۶)۔