کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 676
محاذ آرائی ہوئی وہ خانہ جنگی تھی۔ بعض مصنّفین ایسی باتوں سے زیادہ ہی متاثر ہوئے اور انھوں نے یہاں تک لکھ ڈالا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے مقصد (یعنی لڑائی کے ارادہ) کو چھپائے رکھا۔ یہ مصنّفین اس مسئلہ کو ایک ’’منظم خانہ جنگی‘‘ تصور کرتے ہیں ، لیکن ہمیں ان پر برافروختہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس سلسلہ میں جو بھی مصنف یا قلم کار اس موضوع کی مجروح و موضوع روایات سے معلومات حاصل کرے گا اور ’’الامامۃ و السیاسۃ‘‘، ’’کتاب الاغانی‘‘، ’’مروج الذہب‘‘، ’’تاریخ الیعقوبی‘‘ اور جارج زیدان کی ’’تاریخ التمدن الاسلامی‘‘ جیسی غیر معتمد کتابوں پر اعتماد کرے گا اس کے نوک قلم سے ایسی باتوں کا صادر ہونا ایک طبعی چیز ہے۔[1]
ایک حدیث کی تحقیق:
سیّدہ عائشہ اور علی رضی اللہ عنہما کے درمیان لڑائی کے متعلق بعض لوگوں کے یہاں ایک روایت مشہور ہے:
((تُقَاتَلِیْنَ عَلِیًّا وَ أَنْتِ لَہُ ظَالِمَۃٌ۔))
’’تم علی سے قتال کرو گی، اس حال میں کہ تم ہی ظالم ہوگی۔‘‘
یہ ایسی روایت ہے جس کا حدیث کی کسی معتمد کتاب میں کہیں وجود نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی سند ہے، چہ جائے کہ ہم اسے جھوٹی اور من گھڑت روایات کے قریب ترین کہیں ، قطعیت سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ روایت سراسر جھوٹ ہے، اس لیے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نہ قتال کیا اور نہ اس کے لیے نکلی تھیں ، آپ کے نکلنے کا مقصد صرف ایک تھا، یعنی لوگوں کے درمیان مصالحت، نہ خود لڑائی میں شریک ہوئیں ، نہ کسی کو لڑنے کا حکم دیا، اخبار و روایات کے معرفت رکھنے والے کئی ایک علما نے یہی بات کہی ہے۔[2]
سیّدناعلی ، عائشہ رضی اللہ عنہما کو بحفاظت احترام و اعزاز سے ان کے گھر (مدینہ) پہنچاتے ہیں :
جنگ ختم ہوجانے کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے سواری، دیگر ضروریات اور زاد سفر مہیا کیا، ان کے ساتھ جو لوگ بصرہ آئے تھے اور بچ گئے تھے اور جانے کو تیار تھے، ان کو بھی تیار کیا، البتہ ان میں سے جن لوگوں نے بصرہ میں قیام کو پسند کیا وہ رک گئے، آپ نے بصرہ کی معروف و مشہور چالیس عورتوں کو بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ روانہ کیا اور محمد بن ابوبکر سے کہا: اپنی بہن کے ساتھ سفر کی تیاری کرو، جب کوچ کا دن آیا تو علی رضی اللہ عنہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھیں رخصت کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، لوگ بھی حاضر ہوئے، عائشہ رضی اللہ عنہا باہر تشریف لائیں اور لوگوں کو رخصت کیا، اس وقت آپ رضی اللہ عنہا نے لوگوں سے فرمایا: اے میرے بیٹو! ہم جلد بازی میں
[1] تفصیل کے لیے دیکھیں : دراسۃ و تحلیل للعہد النبوی الأصیل ؍ تالیف: محمد جمیل زینو اور الجزبیۃ السیاسۃ، تألیف: ریاض عیسیٰ، نیز ’’الحریم السیاسی، النبی والنساء، اور الدولۃ العربیۃ، تالیف: فلہوزن، بحوالہ دور المرأۃ السیاسی ص (۴۴۲)۔
[2] منہاج السنۃ (۲؍۱۸۵)۔