کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 675
غَیْرِہَا۔)) (اس حدیث کا ذکر جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ سوال و جواب آپ کی بیوی سے متعلق تھانہ کہ دیگر تمام عورتوں فاطمہ رضی اللہ عنہا وغیرہ سے متعلق) چنانچہ اس کے بعد آپ رحمہ اللہ اپنی ہی سند سے انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: ’’لوگوں میں آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’عائشہ،‘‘ آپ سے عرض کیا گیاکہ آپ کے اہل خانہ کے بارے میں ہم نہیں پوچھ رہے ہیں ، تب آپ نے فرمایا: ’’فأبوہا‘‘ …’’ان کے باپ‘‘[1]
بہرحال ان روایات کے اجمالی جائزہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ فضل و منقبت رکھنے میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقام خدیجہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کے بعد ہے، اس لیے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمومی افضلیت پر دلالت کرنے والی جو دلیل بھی وارد ہے وہ خدیجہ اور فاطمہ کی افضلیت میں وراد شدہ روایات سے مقید ہے۔ ہر چند کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت خدیجہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کے بعد ہے، لیکن علم و بصیرت کے میدان میں آپ رضی اللہ عنہا کا جو مقام ہے وہ فاطمہ اور خدیجہ رضی اللہ عنہما کے بالمقابل آپ ہی کا حصہ ہے، لیکن فضائل میں کسی خصوصیت کے ثبوت سے مطلق افضلیت لازم نہیں آتی۔[2] بہرحال ان خواتین میں کسی کے کسی پر افضلیت پانے سے مفضولہ خاتون پر طعن و تشنیع کا جواز نہیں ملتا، بلکہ یہ ان تینوں خواتین یعنی خدیجہ، فاطمہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے بلند مرتبہ ہونے کی دلیل ہے، اس لیے کہ یہ اختلاف انھیں امت کی افضل ترین خواتین کی فہرست سے خارج نہیں کرتا بلکہ مجموعی اعتبار سے امت مسلمہ کی تمام خواتین پر ان تینوں کی افضلیت ثابت کرتا ہے، اگر فضل و رتبہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کو امت کی خواتین میں تیسرا ہی درجہ مل رہا ہے تو اس میں آپ کی کون سی ہتک ہو رہی ہے، یہ تو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا احترام و تقدس داعی ہے نہ کہ انھیں طعن و تشنیع کے ذریعے سے اپنی بدطینتی کا ہدف بنانے کا جیسا کہ شیعہ و روافض کر رہے ہیں ۔[3]
کیا ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے جنگ جمل میں مسلمانوں کی خون ریزی کو حلال کیا تھا؟
یہ بات گزر چکی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس مقصد سے ہرگز نہیں نکلی تھیں اور نہ آپ نے قتال کا ارادہ کیا تھا، امام زھری رحمہ اللہ آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے جنگ جمل کے بعد فرمایا:
’’میں چاہتی تھی کہ میرا وجود لوگوں کے درمیان ایک رکاوٹ بن کر حائل ہوجائے، میں نہیں گمان کرتی تھی کہ لوگوں میں قتال ہوگا، اگر مجھے اس کا علم ہوتا تو میں کبھی یہ قدم نہ اٹھاتی ۔‘‘[4]
پس اس قدر صریح اور صحیح روایات کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مسلمانوں کا قتال حلال کردیا تھا، یکسر غلط ہے۔ ایسی باتوں کی اساس شیعہ و روافض کی وضع کردہ وہ روایات ہیں جنھوں نے اسلام کی ابتدائی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اور طلحہ، زبیر، عائشہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے درمیان جو
[1] الإحسان بترتیب صحیح ابن حبان (۹؍۱۱)۔
[2] فتح الباری (۷؍۱۰۸) العقیدۃ فی أہل البیت ص (۹۸)۔
[3] الانتصار للصحب والآل ص (۴۶۱)۔
[4] المغازی ؍ الزہری ص (۱۵۴)۔