کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 672
البتہ ان میں کون کس سے افضل ہے یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے۔‘‘[1]
اسی طرح آپ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ خدیجہ اور عائشہ میں کون کس سے افضل ہے؟ تو آپ نے جواب دیا: شروع اسلام میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اسلام کی طرف پیش قدمی، اس سے لگاؤ اور اس کی نصرت و تائید آپ کی ایسی خصوصیت ہے جس میں عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر امہات المومنین شریک نہیں ہیں ، اسی طرح عہد نبوت کے بعد کے اسلامی دور میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی دینی لگاؤ، اس کے لیے تڑپ، اسے امت محمدیہ تک پہنچانا اور اس میں گہرائی و گیرائی کا جو ملکہ آپ کو ملا اس میں خدیجہ رضی اللہ عنہا اور دیگر امہات المومنین شریک نہیں ، یہ سب آپ کی امتیازی خصوصیات میں سے تھیں ۔[2]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’فاطمہ کی افضلیت متفق علیہ ہے، البتہ عائشہ اور خدیجہ رضی اللہ عنہا میں کون کس سے افضل ہے اس سلسلے میں اختلاف ہے۔‘‘[3]
آپ رحمہ اللہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ خدیجہ کو ان کے رب کا اور میرا سلام کہہ دیجیے[4] کی شرح میں لکھتے ہیں کہ سہیلی نے فرمایا: اس واقعہ سے ابوبکر بن داؤد نے عائشہ رضی اللہ عنہا پر خدیجہ کی فضیلت کے لیے استدلال کیا ہے، بایں طور کہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر جبریل علیہ السلام نے اپناسلام عرض کیا تھا، جب کہ خدیجہ کو ان کے رب نے سلام کہا۔ اور ابن العربی کا خیال ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر خدیجہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت میں کوئی اختلاف نہیں ہے، حالانکہ آپ کا یہ خیال غلط ہے، اس لیے کہ یہ ایک قدیم اختلاف ہے، اگرچہ اس روایت سے اور دیگر روایات سے بھی خدیجہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت ثابت ہو رہی ہے۔[5]
مذکورہ خواتین کے مابین افضلیت کے باب میں وارد شدہ نصوص پر دقیق نظر اور تحقیقی مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان میں سب سے افضل خدیجہ ہیں ، پھر فاطمہ، پھر عائشہ رضی اللہ عنہا ، اس لیے کہ تین روایات سے خدیجہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت علی الاطلاق ثابت ہو رہی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((لَقَدْ فُضِّلَتْ خَدِیْجَۃُ عَلَی نِسَائِ أُمَّتِيْ۔))[6]
’’خدیجہ کو میری امت کی خواتین پر فضیلت دی گئی ہیں ۔‘‘
[1] مجموع الفتاوٰی (۴؍۳۹۴) اور پھر اگر حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا مرکز فتنہ تھا تو پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب مسکن اور مدفن کیسے قرار پایا؟ (مترجم)
[2] مجموع الفتاوٰی (۴؍۳۹۳)۔
[3] فتح الباری (۷؍۱۰۹)۔
[4] صحیح البخاری، حدیث نمبر (۳۸۲۰)
[5] فتح الباری (۷؍۱۳۹)۔
[6] فتح الباری (۷؍۱۳۵) مجمع الزوائد (۹؍۲۲۳)۔