کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 671
برکت نازل فرما۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اور ہمارے نجد میں بھی۔[1] راوی کا بیان ہے کہ میرے خیال میں آپ نے تیسری مرتبہ کہا: ((ہُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَ الْفِتَنُ وَ بِہَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ۔)) [2] ’’وہاں زلزلے اور فتنے برپا ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سر نمودار ہوگا۔‘‘ ٭ سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: اے اہل عراق! تعجب ہے کہ تم زیادہ صغائر کے بارے میں سوال کرتے ہو اور کبائر کا ارتکاب کرتے ہو۔ میں نے اپنے والد عبداللہ بن عمر کو فرماتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((اِنَّ الْفِتْنَۃَ تَجِیْیُٔ مِنْ ہٰہُنَا۔)) فتنے یہاں سے آئیں گے، پھر آپ نے مشرق کی سمت اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور فرمایا: ((مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرَنَا الشَّیْطَانِ)) [3] جہاں سے شیطان کے سینگ سر نمودار ہوتے ہیں ۔ ٭ اسی طرح بعض روایات میں ان مقامات کے باشندوں اور قبیلوں کی طبائع اور خصلتوں کا ذکر ہے، چنانچہ ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور فرمایا: (( اَلْاِیْمَانُ یَمَانِ ، ہَاہُنَا، وَ إِنَّ الْقَسْوَۃَ وَ غِلَظَ الْقُلُوْبِ فِي الْفَدَادِیْنَ عِنْدَ اُصُولِ أَذْنَابِ الْاِبِلِ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنَا الشَّیْطَانِ فِيْ رَبِیْعَۃَ وَ مُضَرَ۔))[4] ’’ایمان تو ادھر ہے یمن میں ، ہاں اورقساوت اور سخت دلی ان لوگوں میں ہے جو اونٹوں کی دمیں پکڑ کر چلاتے رہتے ہیں ، جہاں سے شیطان کے سینگ نمودار ہوتے ہیں ، یعنی ربیعہ اور مضر کی قوموں میں ۔‘‘ مختصر یہ کہ مذکورہ تمام روایتیں اس بات کی قطعی دلیل ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول ((اَلْفِتْنَۃُ ہٰہُنَا۔)) سے بلاد مشرق مراد لے رہے تھے حتی کہ آپ نے بعض مقامات اور وہاں کے قبائل کی نشان دہی بھی کردی، پس شیعہ و روافض کا یہ دعویٰ یکسر غلط ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ اور مراد حجرۂ عائشہ تھا۔ یہ بالکل ناقابل توجہ اور غیر معتبر رائے ہے۔ شیعہ اور روافض کے علاوہ کسی نے اس حدیث کا یہ مفہوم کبھی نہیں لیا۔[5] ۱۰۔عائشہ، خدیجہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہن کے مابین تقابل: امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’مجموعی طور سے اس امت کی خواتین میں سب سے افضل خدیجہ، عائشہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہن ہیں ،
[1] نجد کا علاقہ مشرق کی سمت میں پڑتا ہے اور مدینہ سے مشرق میں نجد عراق پڑتاہے۔ [2] صحیح البخاری، حدیث نمبر (۷۰۹۴)۔ [3] صحیح مسلم؍ الفتن من المشرق (۴؍۲۲۲۹)۔ [4] صحیح البخاری، حدیث نمبر (۳۳۰۲)۔ [5] الانتصار للصحب و الآل ص (۴۵۵)۔