کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 669
٭ عمار رضی اللہ عنہ یہ بات کہہ کر عائشہ رضی اللہ عنہا کی توہین یا ان کی مذمت نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ امت کی خیرخواہی کے پیش نظر ان کی اجتہادی غلطی واضح کردینا چاہتے تھے کیونکہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود انھیں عائشہ رضی اللہ عنہا کی قدر و منزلت اور فضیلت کا اعتراف تھا۔[1] عمار رضی اللہ عنہ سے وارد شدہ اثر کی بعض روایات میں یہ اضافہ بھی ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی سے سنا کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو گالیاں دے رہا ہے، تو آپ نے اس سے کہا: چپ ہو جا، مردود ونالائق، اللہ کی قسم! وہ دنیا اور آخرت میں تیرے نبی کی زوجہ ہیں ، لیکن اللہ نے ان کے ذریعے سے تمھیں آزمائش میں ڈالا ہے کہ دیکھے تم اس کی اطاعت کرتے ہو یا عائشہ کی۔[2] رہا شیعہ اور روافض کا یہ قول کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی رہائش گاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ((ہٰہُنَا الْفِتْنَۃُ مِنْ حَیْثُ یَطْلَعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ۔)) ’’یہاں فتنے برپا ہوں گے یہاں سے شیطان کا سر نمودار ہوگا۔‘‘ پھر اس روایت کے سہارے عائشہ رضی اللہ عنہا کی رہائش گاہ کو منبع فتنہ قرار دے کر ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا، تویہ سب باتیں گمراہ کن تاویلات، حقائق کے توڑ مروڑ اور تدلیس پر مبنی ہیں اور ان کے ذریعے سے سادہ لوح عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے، چنانچہ یہ لوگ حدیث کے راوی کے قول ((فَأَشَارَ نَحْوَ مَسْکَنِ عَائِشَۃَ)) کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر (حجرہ) کی طرف تھا، اور اسے ہی آپ منبع فتنہ بتانا چاہتے تھے، جیسے عربی زبان کی نزاکت و اسلوب سے واقفیت ہے وہ جان سکتا ہے کہ یہ حدیث کسی بھی اعتبار سے اس مفہوم پر دلالت نہیں کرتی، کیونکہ راوی حدیث نے ((أَشَارَ نَحْوَ مَسْکَنِ عَائِشَۃَ۔)) کہا نہ کہ ((أَشَارَ إِلَی جِہْۃِ مَسْکَنِ عَائِشَۃَ۔))اور دونوں تعبیروں میں جو معنوی فرق ہے وہ بالکل واضح ہے، اور اسے اچھی طرح محسوس کیا جاسکتا ہے، نیز پوری روایت کے الفاظ دیکھنے کے لیے صحیح البخاری، کتاب فرض الخمس، باب ما جاء فی بیوت ازواج النبی صلي الله عليه وسلم حدیث نمبر (۳۱۰۴) کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ روایت صحیحین کے علاوہ دیگر کتب حدیث میں متعدد سندوں اور مختلف الفاظ میں وارد ہے اور وہاں اس بات کی صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کن مقامات اور شہروں کی طرف اشارہ کیا تھا، بس وہی روایات حقیقت بیانی کے ساتھ ساتھ شیعہ و روافض کی تردید کے لیے کافی ہیں ۔ ان کی تردید کے لیے مزید تکلف کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، بہتر ہوگا کہ سردست متعدد سندوں سے وارد ابن عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر راویوں کی چند روایات نقل کر دی جائیں ۔
[1] الانتصار للصحب والآل (۴۴۸)۔ [2] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۴۸)۔