کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 668
دنیا وآخرت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں ۔ ہر مومن کی آخری طلب تو بس یہی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی رضا اورجنت پا جائے، پس عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر خوش قسمت کون ہوسکتا ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ جو کہ اس فتنہ میں آپ کی رائے کے مخالف تھے، وہ انھیں جنتی ہونے کی گواہی دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں جنت کے بلند ترین درجہ میں ہوں گی۔[1] عمار رضی اللہ عنہ کا یہ قول ایک سچائی کا ترجمان ہے، خود عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے اس کی توثیق و تائید ہوتی ہے۔ آپ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَمَا تَرْضِیْنَ أَنْ تَکُوْنِيْ زَوْجَتِْي فِيْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔)) ’’کیا تمھیں یہ پسند نہیں کہ دنیا اور آخرت میں تم میری بیوی رہو۔‘‘ آپ فرماتی ہیں کہ میں نے کہا: کیوں نہیں ! ضرور اے اللہ کے رسول۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَأَنْتِ زَوْجَتِيْ فِيْ الدُّنْیَا وَ الْآَخِرَۃِ۔)) ’’تو جان لو! کہ تم دنیا اور آخرت دونوں جگہ میری بیوی ہو۔‘‘[2] گویا یہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کی عظیم ترین فضیلت پر ایک قوی دلیل ہے، اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے عمار رضی اللہ عنہ سے مروی اثر کو عائشہ رضی اللہ عنہا کے مناقب و فضائل میں ذکر کیا ہے۔[3] البتہ عمار رضی اللہ عنہ کے قول کا آخری جملہ کہ ’’لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے سے تمھیں آزمائش میں ڈالا ہے…‘‘ تو اس سے عائشہ رضی اللہ عنہ کی توہین یا ان پر طعن و تشنیع کا کوئی پہلو نہیں نکلتا کیونکہ: ٭ یہ عمار رضی اللہ عنہ کی اپنی رائے کا اظہار ہے کہ ہم حق پر ہیں اور وہ غلطی پر، جب کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے ان کے خلاف ہے کہ ہم حق پر ہیں اور وہ غلطی پر اور دونوں جلیل القدر صحابی ہیں ۔ علم اور دین میں چوٹی تک پہنچے ہوئے ہیں ، لہٰذا یہ کیوں کر درست ہے کہ کسی ایک کے قول کو دوسرے پر ترجیح دی جائے۔ ٭ عمار رضی اللہ عنہ کے قول کا مطلب زیادہ سے زیادہ یہ لیا جاسکتا ہے کہ اس فتنہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے حکم کی مخالفت کی، لیکن یہ مخالفت اس وقت تک قابل مذمت نہیں ہے جب تک کہ مخالفت پر حجت نہ قائم کردی جائے اور یہ معلوم ہو جائے کہ مخالف حجت قائم ہونے کے بعد بھی مخالفت کر رہا ہے اگر ایسی بات نہیں ہے تو مخالف کو معذور سمجھا جائے گا، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ مسئلہ کو بھول گیا ہو، یا اس کی نگاہ میں کوئی اور مفہوم ہو، لہٰذا اس کی گرفت نہیں کی جائے گی۔
[1] الانتصار للصحب و الآل ص (۴۴۸)۔ [2] المستدرک (۴؍۱۰) الصحیح المسند؍ مصطفٰی العدوی ص (۳۵۶)۔ [3] صحیح البخاری، حدیث نمبر (۳۷۷۲)۔