کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 666
عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان اس طرح ہے کہ آپ پوچھتے رہتے: ((اَیْنَ اَنَا الْیَوْمَ؟ اَیْنَ اَنَا غَدًا۔)) آج میں کہاں ہوں ، کل میں کہاں رہوں گا، جب میری باری آئی تو اللہ نے اس دن میرے سینے اور ٹھوڑی کے درمیان آپ کو وفات دیا۔[1]
صحیح بخاری میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ واقعہ اس طرح بھی مروی ہے کہ آپ اپنی مرض الموت میں پوچھتے رہتے: ((أَیْنَ أَنَا غَدًا؟ أَیْنَ أَنَا غَدًا؟)) کل میں کہاں رہوں گا، کل میں کہاں رہوں گا؟ یعنی آپ کو عائشہ رضی اللہ عنہا کے دن کا انتظار تھا، آپ فرماتی ہیں کہ پھر آپ کی دوسری بیویوں نے آپ کو اجازت دے دی کہ جہاں چاہیں رہیں ، چنانچہ آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کو منتخب کیا اور وفات پانے تک وہیں رہے، آپ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آپ کی وفات اسی دن ہوئی جس دن قاعدہ کے مطابق یہاں آپ کے قیام کی باری تھی، رحلت کے وقت سرِ مبارک میرے سینے پر تھا اور میرا لعاب آپ کے لعاب کے ساتھ ملا تھا، انھوں نے بیان کیا کہ عبدالرحمن بن ابوبکر داخل ہوئے، اور ان کے ہاتھ میں استعمال کے قابل مسواک تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا تو میں نے کہا کہ عبدالرحمن! یہ مسواک مجھے دے دو، انھوں نے مسواک مجھے دے دی، میں نے اسے اچھی طرح چبایا اور نرم کرکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دی، پھر آپ نے وہ مسواک کی، اس وقت آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، اس کے بعد والی روایت میں اتنے الفاظ زائد ہیں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ نے میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب کو اس دن جمع کردیا، جو آپ کی دنیا کی زندگی کا سب سے آخری اور آخرت کی زندگی کا سب سے پہلا دن تھا۔[2]
۸۔جنت کی بشارت:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ کی بیویوں میں سے کون جنت میں جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ((أَمَا إِنَّکِ مِنْہُنَّ ))’’تم تو انھیں میں سے ہو۔‘‘ فرماتی ہیں کہ میرے دل میں یہ بات آئی کہ یہ ہوسکتاہے اس لیے کہ آپ نے میرے علاوہ کسی اور کنواری عورت سے شادی نہیں کی۔[3]
صحیح بخاری میں قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار پڑیں ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کی عیادت کے لیے آئے اور عرض کیا: ’’ام المومنین! آپ تو سچائی کے پیکر میرکارواں کے پاس جارہی ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس۔‘‘ [4]
اس حدیث میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے ایک عظیم فضیلت کی شہادت ہے کیونکہ آپ کو قطعی طور پر جنتی کہا گیا اور بغیر ربانی اشارہ کے یہ بات آپ نہیں کہہ سکتے تھے، اس لیے کہ یہ توقیفی چیز ہے۔[5]
[1] صحیح مسلم، حدیث نمبر (۲۴۴۳)۔
[2] صحیح البخاری، حدیث نمبر (۴۴۵۰، ۴۴۵۱)۔
[3] المستدرک (۴؍۱۳) اس کی سند صحیح ہے، امام ذہبی نے امام حاکم کی موافقت کی ہے۔
[4] صحیح البخاری، حدیث نمبر (۳۷۷۱)۔
[5] فتح الباری (۷؍۱۰۸) العقیدۃ فی أہل البیت ص (۹۵)۔