کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 665
مجھے تو صرف اتنی امید تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی خواب دیکھیں گے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ میری براء ت کردے گا۔[1] یہ ہیں امت مسلمہ کی صدیقہ خاتون، تمام مومنوں کی ماں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب نظر، انھیں خوب معلوم تھا کہ میں مظلوم ہوں ، اس گندی تہمت سے پاک ہوں ، تہمت باز ظالم ہیں ، افتراء پردازی کر رہے ہیں ، انھوں نے اپنی گفتگو کے تیر و نشتر سے آپ رضی اللہ عنہا کے والدین اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی کیا تھا۔[2] علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جب اہل افک نے جھوٹ اور بہتان سے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاک دامن کو داغ دار کرنا چاہا تو اللہ کو غیرت آئی اور ان کی براء ت و صفائی میں قرآن کی دس آیات نازل کیں جو تاقیامت پڑھی جائیں گی …تمام علمائے امت اس بات پر متفق ہیں کہ اب اس براء ت کے بعد بھی جو شخص آپ پر تہمت لگاتا ہے وہ کافر ہے۔[3] وہ آیات جن میں آپ کے ذریعے سے پوری امت کو فائدہ پہنچا، ان میں سب سے اہم آیت تیمم ہے۔ یہ آیت پوری امت کے لیے رحمت اور آسانی کا سبب بن گئی، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے اسماء رضی اللہ عنہا سے ہار عاریت میں لیا، اتفاق کی بات کہ وہ گم ہوگیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلاش میں اپنے چند صحابہ کو بھیجا، اسی دوران نماز کا وقت ہوگیا اور انھوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی، جب وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ کر آئے تو اس واقعہ کی آپ سے شکایت کی، تب آیت تیمم نازل ہوئی۔ اسید بن حضیر کہنے لگے: ((جَزَاکِ اللّٰہِ خَیْرًا۔))اللہ آپ کو جزائے خیر دے، اللہ کی قسم! آپ کے ساتھ جو بھی ناپسندیدہ معاملہ پیش آیا اللہ نے اس میں آپ کے لیے اور امت کے لیے خیر پیدا کردی۔[4] ۷۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خواہش کہ میری زندگی کے آخری ایام عائشہ کے گھر میں ہوں : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات عائشہ رضی اللہ عنہ کی باری کے دن اور ان کی ٹھوڑی اور سینہ کے درمیان ٹیک لگائے ہوئے ہوئی۔ اللہ نے آپ کی دنیاوی زندگی کی آخری اور اخروی زندگی کی پہلی گھڑی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور عائشہ کے لعاب دہن کو اکٹھا کردیا اور عائشہ ہی کے گھر میں تدفین ہوئی۔[5] عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو اپنی بیویوں کے یہاں باری کے مطابق بیماری کے ایام گزارتے اور کہتے: ((اَیْنَ اَنَا غَدًا۔)) میں کل کہاں رہوں گا، یعنی آپ کو عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کا انتظار ہوتا، عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میری باری آگئی تو آپ کو سکون ہوگیا۔[6] اور صحیح مسلم میں
[1] صحیح البخاری، حدیث نمبر (۴۱۴۱)۔ [2] جلاء الأفہام ص (۱۲۴، ۱۲۵)۔ [3] البدایۃ والنہایۃ (۲؍۹۵۸) تفسیر القرآن العظیم (۳؍۲۶۸)۔ [4] صحیح البخاری، حدیث نمبر (۳۲۶)۔ [5] سیر أعلام النبلاء (۲؍۱۸۹) البدایۃ والنہایۃ (۸؍۹۵)۔ [6] صحیح البخاری؍ فضائل الصحابۃ ؍ حدیث نمبر (۳۷۷۴)۔