کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 664
گئی ہے۔ آپ کی صداقت و پاکیزگی کی ترجمان یہ آیتیں سورہ نور میں آیت نمبر ۱۱ (گیارہ) سے آیت نمبر ۲۶ (چھبیس) تک ہیں ۔ آغاز یہاں سے ہوتا ہے: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُم مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾ (النور:۱۱) ’’بے شک وہ لوگ جو بہتان لے کر آئے ہیں وہ تمھی سے ایک گروہ ہیں ، اسے اپنے لیے برا مت سمجھو، بلکہ یہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ ان میں سے ہر آدمی کے لیے گناہ میں سے وہ ہے جو اس نے گناہ کمایا اور ان میں سے جو اس کے بڑے حصے کا ذمہ دار بنا اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘ اور انتہا یہاں ہوتی ہے: ﴿ الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ أُولَـٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ۖ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ﴾ (النور:۲۶) ’’گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں ۔ یہ لوگ اس سے بری کیے ہوئے ہیں جو وہ کہتے ہیں ، ان کے لیے بڑی بخشش اور باعزت روزی ہے۔‘‘ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :یہ محض آپ رضی اللہ عنہا کی خصوصیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل افک کے تہمتوں سے آپ کو بری ثابت کیا اور آپ کی براء ت و صفائی میں ایسی وحی نازل فرمائی جسے قیامت تک مسلمانوں کی نمازوں میں اور ان کے منبر و محراب پر پڑھی جاتی رہے گی، ان کے حق میں گواہی دی کہ آپ ’’طیبات‘‘ پاک عورتوں میں سے ہیں اور ان سے مغفرت اور رزق کریم کا وعدہ کیا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مطلع کیا کہ آپ رضی اللہ عنہا کے بارے میں جو کچھ بہتان تراشیاں کی گئیں ان کے حق میں بہتر ثابت ہوئیں ، ان سے آپ کا دامن داغ دار نہیں ہوا، اور نہ آپ کی شان کم ہوئی، بلکہ اس واقعہ کے سبب اللہ نے آپ کی عظمت کو چار چاند لگا دیے، اور آپ کے فضل و منقبت کو نکھار دیا، دونوں جہان والوں کے درمیان آپ کی شخصیت پاگیزگی کی یادگار بن گئی۔ اس عظیم ترین منقبت کی خوبیوں کا کیا کہنا۔ شرافت واکرام کے اس الٰہی تمغہ پر ذرا غور تو کرو، جو آپ رضی اللہ عنہا کی شدت تواضع اور کسر نفسی کی وجہ سے آپ کو پہنایا گیا تھا، آپ فرماتی ہیں : مجھے اس کا کوئی وہم وگمان بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے قرآن مجید میں میرے معاملے کی صفائی نازل کرے گا، کیونکہ میں اپنے کو اس سے بہت کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ خود میرے معاملے میں کوئی کلام فرمائے،