کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 660
ج: طبری بسند واقدی لکھتے ہیں کہ ۱۰جمادی الاخری ۳۶ھ بروز جمعرات لڑائی ہوئی۔[1]
د: مسعودی لکھتے ہیں کہ بروز جمعرات ۱۰جمادی الاولیٰ یہ لڑائی ہوئی۔ [2]
۶۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گستاخی کرنے والے کے بارے میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا موقف:
ایک آدمی امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی کہ دروازے پر دو آدمی عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں ۔ علی رضی اللہ عنہ نے قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ دونوں کو پکڑو اور ان کے کپڑے اتار کرکے سو سو کوڑے لگاؤ۔[3] چنانچہ قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے ان پر یہ سزا نافذ کی۔
۷۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا دفاع:
محمد بن عریب کا بیان ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور علی رضی اللہ عنہ کے پاس عائشہ رضی اللہ عنہا کے حق میں نازیبا کلمات کہے،
اتنے میں وہاں عمار رضی اللہ عنہ پہنچ گئے اور کہا: یہ کون ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ محترمہ کے حق میں نازیبا کلمات کہہ رہا ہے؟ چپ ہو جا مردُود، بدبخت اور نالائق۔[4]اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ہٹ جا یہاں سے مردُود،و بدتمیز، کیا تو حبیبۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دے رہا ہے۔[5] اور ایک روایت میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذکر ہوا، تو آپ نے فرمایا: انھیں کچھ مت کہو، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ محترمہ ہیں ۔[6]
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اور امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ کا تقابل
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ بنت صدیق، یعنی ابوبکر عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہما کی صاحبزادی ہیں ۔ آپ کی والدہ ام رومان بنت عویمر کنانیہ رضی اللہ عنہا ہیں ، بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے چاریا پانچ سالوں بعدآپ کی ولادت ہوئی، چھ سال کی عمر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد نکاح ہوا اور نو سال کی عمر میں رخصتی ہوئی، باختلاف روایات شوال ۱ھ میں یا ۲ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خلوت کی، آپ وہ خوش قسمت خاتون ہیں جن کی سات آسمانوں کے اوپر سے براء ت کا اعلان آیا۔ازواج مطہرات میں آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے علاوہ کسی کنواری عورت سے شادی نہیں کی، مسلم خواتین میں بالاتفاق فقہ و بصیرت میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ، تمام اکابر صحابہ جب دین کے کسی مشکل مسئلہ میں الجھ جاتے تو آپ رضی اللہ عنہا ہی کی طرف رجوع کرتے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس وقت آپ کی عمر کل (۱۸) اٹھارہ سال تھی۔ ۱۷رمضان ۵۸ھ میں آپ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔
[1] استشہاد عثمان ص (۲۰۶) بحوالہ تاریخ الطبری ۔
[2] مروج الذہب (۲؍۳۶۰)۔
[3] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۳۵۸)۔
[4] فضائل الصحابۃ (۲؍۱۱۰) اس کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: ضعیف السنن الترمذی؍ البانی ، حدیث نمبر (۸۱۵)۔
[5] سیر أعلام النبلاء (۲؍۱۷۹) یہ حدیث حسن ہے۔
[6] سیر أعلام النبلاء (۲؍۱۷۶) یہ حدیث حسن ہے۔