کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 66
اگرچہ عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو حج کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن مسلمانوں اور مشرکین کے حج میں کوئی امتیاز قائم نہ کیا جا سکا تھا۔[1] چنانچہ جب ۹ ہجری میں حج کا زمانہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ فرمایا لیکن آپ نے یہ کہہ کر ارادہ ترک کر دیا کہ ’’ننگے مشرکین خانہ کعبہ کا طواف کریں گے، مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس حالت میں حج کروں ۔‘‘ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۹ہجری میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج مقرر کر کے روانہ فرمایا۔ آپ رضی اللہ عنہ حجاج کو لے کر مکہ روانہ ہوئے۔ اتنے میں سورئہ برائت کا نزول ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور حکم دیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جا ملو۔ علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ’’عضباء‘‘ پر سوار ہو کر نکلے اور ذوالحلیفہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جا ملے۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امارت میں یہ حج حجۃ الوداع[2] کا مقدمہ تھا اور اس حج میں یہ اعلان کیا گیا کہ بت پرستی کا دور ختم ہوا اور توحید کے نئے دور کا آغاز ہوا، اب لوگوں پر لازم ہے کہ اللہ کی شریعت کی پابندی کریں ۔ قبائل عرب میں اس عام اعلان کے بعد ان قبائل کو یقین ہو گیا کہ اب یہ قطعی فیصلہ ہے اور اصنام پرستی کا خاتمہ ہو چکا، لہٰذا اپنے اسلام میں داخلے اور توحید کا اعلان کرتے ہوئے اپنے وفود کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجنے لگے۔ [3]
۴۔ حجۃ الوداع:
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے روانہ ہوئے، جب ہم وادی عرج میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں رکے، عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں بیٹھی تھیں ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس سازوسامان کے لیے ایک ہی سواری تھی، جو ان کے غلام کے ساتھ تھی، آپ اس کا انتظار کر رہے تھے، اتنے میں غلام آیا لیکن اونٹ اس کے ساتھ نہ تھا۔
دریافت کیا: اونٹ کدھر گیا؟
جواب دیا: رات میں غائب ہو گیا۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک ہی اونٹ تھا، اس کو بھی غائب کر دیا؟
پھر اس غلام کو مارنا شروع کر دیا۔ یہ منظر دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے ہوئے فرما رہے تھے : ’’دیکھو اس مُحرم کو کیا کر رہا ہے؟‘‘[4]
[1] دراسات فی عہد النبوۃ، عماد الدین خلیل: ۲۲۲۔
[2] السیرۃ النبویۃ لابی شہبہ: ۲/۵۴۰۔
[3] قراء ۃ سیاسیۃ للسیرۃ النبویۃ، قلعجی: ۲۸۳۔
[4] مسند احمد: ۶/۳۴۴۔