کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 659
عمر بن شبہ اپنی سند سے ذکر کرتے ہیں کہ مقتولین کی تعداد چھ ہزار (۶۰۰۰) سے زائد تھی، لیکن یہ روایت بھی سند کے اعتبار سے سخت ضعیف ہے۔[1]
۴۔جنگ کے خاتمہ پر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا اعلان:
جب جنگ بندی کے آثار نظر آنے لگے تو علی رضی اللہ عنہ نے اپنے منادی سے اعلان کروایا:
’’کسی زخمی پر ہاتھ نہ اٹھاؤ، بھاگنے والے کا پیچھا نہ کرو، کسی کے مکان کے اندر نہ گھسو، جو ہتھیار ڈال دے اسے امان ہے، جو گھر کا دروازہ بند کرلے اسے امان ہے، مال غنیمت صرف اسے سمجھو جو ہتھیار اور دیگر سامانوں کی شکل میں میدان جنگ تک لایا گیا ہو، اس کے علاوہ دوسرا سامان تمھارے لیے حلال نہیں ہے اور پھر بصرہ کے لشکر میں امیر المومنین کے منادی نے یہ اعلان کیا: میرے لشکر میں جس کے پاس کسی کا اپنا کوئی سامان ملے وہ اسے لے سکتا ہے۔‘‘[2]
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں بعض لوگ سوچ رہے تھے کہ عنقریب آپ ہمارے درمیان قیدیوں کو تقسیم کریں گے، اس سلسلے میں انھوں نے آپس میں باتیں شروع کردیں اور لوگوں میں یہ بات عام ہونے لگی تھی تب تک علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات بھی شامل اعلان کردیا، لیکن ام ولد میں تمھارا کوئی حق نہیں ہے، میراثیں اللہ کے فرائض پر تقسیم ہوں گی، جو عورت بیوہ ہوگئی ہو وہ چار مہینے دس دن کی عدت پوری کرے، لوگوں نے آپ پر اعتراض کیا اور کہا: اے امیر المومنین! آپ ان کا خون ہمارے لیے حلال مانتے ہیں اوران کی عورتوں کو ہمارے لیے حلال نہیں مانتے؟ آپ نے جواب دیا: مسلمانوں کے بارے میں یہی سنت ہے، پھر آپ نے ان کو خاموش کرنے کے لیے فرمایا: تم تیروں کو لاؤ اور عائشہ رضی اللہ عنہا پر قرعہ اندازی کرو کیونکہ وہی لشکر کی قائد تھیں (پھر دیکھو کس کے حصہ میں آتی ہیں )، یہ سن کر سب لوگ استغفر اللہ کہتے ہوئے منتشر ہوگئے، اور اچھی طرح سمجھ گئے کہ ہماری بات اور ہمارا گمان غلط تھا، آپ نے انھیں خوش کرنے کے لیے بیت المال سے پانچ پانچ سو درہم عطاکیا۔[3]
۵۔ معرکۂ جمل کی تاریخ:
معرکۂ جمل کی تاریخ کا تعین کرنے میں مورخین کے اقوال مختلف ہیں :
ا: خلیفہ بن خیاط قتادہ کی سند سے لکھتے ہیں کہ دونوں جماعتیں ۱۵جمادی الاخری ۳۶ھ بروز جمعرات آمنے سامنے ہوئیں ، اور لڑائی جمعہ کے دن ہوئی۔[4]
ب: مورخ عمر بن شبہ لکھتے ہیں کہ ۱۵ جمادی الاخری ۳۶ھ کو لڑائی ہوئی۔[5]
[1] تاریخ خلیفۃ بن خیاط ص (۱۸۶) اس کی سند منقطع ہے اور قتادہ تک اس کی سند حسن ہے۔
[2] خلافۃ علی بن أبی طالب ص (۱۶۸) مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍۲۸۶) بسند صحیح۔
[3] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍۲۸۶) حافظ ابن حجر نے اس کی سند کی تصحیح کی ہے، دیکھئے: فتح الباری(۱۳؍۵۷)۔
[4] تاریخ خلیفہ ص (۱۸۴، ۱۸۵)۔
[5] فتح الباری (۱۲؍۶۱)۔