کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 658
تھیں پھر بھی جنگ جاری ہوچکی تھی اور آپ جنگی شور وہنگامہ کے درمیان پھنس چکی تھیں ۔برابر جنگ بندی کا اعلان کررہی تھیں ، لیکن کوئی سننے والا نہ تھا، جس نے اونٹ کی نکیل پکڑی شہید کردیا گیا۔ محمد بن طلحہ (السجاد) آئے، اونٹ کی نکیل پکڑی اور ام المومنین سے عرض کی: اے اماں جان! آپ کیا حکم دیتی ہیں ، آپ نے فرمایا: آدم کے دو بیٹوں میں سے اچھے کی طرح ہوجاؤ یعنی اپنا ہاتھ روک لو، انھوں نے اپنی سونتی ہوئی تلوار نیام میں کرلی اور شہید کردیے گئے، اللہ ان پر رحم فرما۔[1] اسی طرح عبدالرحمن بن عتاب بن اسید جنھوں نے جان کی بازی لگا کر اشتر کو تہ تیغ کر نے کی کوشش کی تھی وہ بھی شہید کردیے گئے، آپ اشتر سے بھڑگئے تھے اور لڑتے لڑتے جو دونوں زمین پر گرگئے تو ابن عتاب نے غضب ناک ہو کر اپنے آس پاس کے لوگوں سے کہا: مجھے اور مالک کو قتل کردو۔[2] آپ نے ایسا اس لیے کہا تھاکہ آپ اس سے جلے ہوئے تھے، کیونکہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف عوام کو بھڑکانے میں اس نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا،لیکن چونکہ ’’اشتر‘‘ مالک کے نام سے مشہور نہ تھا اور یہ کہئے کہ ابھی اس کی موت بھی مقدر نہ تھی اس لیے لوگوں کی توجہ ادھرکم گئی، اگر ابن عتاب مالک کے بجائے، ’’اشتر‘‘ کہتے، تو شاید اس پر تلواروں کی بوچھاڑ ہوجاتی۔[3] ۳۔ مقتولین کی تعداد: اس تباہ کن لڑائی میں مقتولین کی جو تعداد سامنے آئی ہے، اس کا اندازہ لگانے میں روایات مختلف ہیں ، اسی لیے مسعودی نے راویوں کے ذاتی رجحان کو اس اختلاف کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔[4] چنانچہ قتادہ کہتے ہیں کہ جنگ جمل میں مقتولین کی تعداد بیس ہزار تھی[5] لیکن اس میں مبالغہ معلوم ہوتاہے اس لیے کہ دونوں فوجوں کی کل تعداد ہی اتنی یا کچھ کم تھی، جب کہ ابومخنف رافضی اور شیعہ راوی نے اس سے میں اور بھی مبالغہ آمیزی کی ہے، اس کا یہ خیال تھا کہ اس کرتوت سے میں نے اچھا کام کیا ہے۔ حالانکہ اس نے برا کیا، اس کا کہنا ہے کہ صرف بصری فوج کی تعداد بیس (۲۰) ہزار تھی۔[6] اور سیف بن عمر نے لکھا ہے کہ مقتولین کی تعداد دس ہزار تھی، نصف علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کے تھے اور نصف عائشہ رضی اللہ عنہا کے اور ان کی دوسری روایت ہے کہ بیان کیا جاتا ہے کہ مقتولین کی تعداد پندرہ ہزار تھی، پانچ ہزار اہل کوفہ میں سے تھے اور دس ہزار اہل بصرہ میں سے، نصف مقتولین معرکہ کے پہلے رن میں اور نصف دوسرے رن میں [7]یہ دونوں روایات انقطاع اور دیگر اسباب ضعف کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہیں اور ان دونوں میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہے۔
[1] نسب قریش ص (۲۸۱) التاریخ الصغیر ؍ البخاری (۱؍ ۱۱۰) بسند صحیح۔ [2] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍ ۲۲۸)۔ [3] خلافۃ علی بن أبی طالب ص؍ عبدالحمید ص (۱۵۹)۔ [4] مروج الذہب (۲؍ ۳۶۷) ۔ [5] مروج الذہب (۲؍ ۳۶۷)۔ [6] تاریخ خلیفۃ بن خیاط ص (۱۸۶) بسند مرسل۔ [7] تاریخ الطبری (۵؍ ۵۴۲ تا ۵۵۵)۔