کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 657
سبائیوں کی تیروں نے صرف کعب کا نقصان نہ کیا بلکہ وہ تیر عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ اور ہودج کو بھی آلگے، آپ رضی اللہ عنہا پکار پکار کر کہنے لگیں ، اے میرے بیٹو! اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، اللہ اور روز حساب کو یاد کرو، جنگ سے باز آجاؤ‘‘ لیکن سبائی آپ کی بات سننے کو تیار نہ تھے، بصری فوج کو پسپا کرنے کی پوری کوشش میں لگے تھے، علی رضی اللہ عنہ پیچھے سے انھیں جنگ بند کرنے کا حکم دے رہے تھے اور بصریوں پر ہجوم کرنے سے منع کررہے تھے، لیکن سبائی چونکہ مقدمہ الجیش میں تھے اس لیے وہ آپ کی بات ماننے کو تیار نہ تھے اور مسلسل حملہ اور قتال کرتے ہوئے آگے بڑھتے جارہے تھے۔
جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ وہ لوگ آپ کی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں اور کعب بن سور آنکھوں کے سامنے قتل کیے جاچکے، تو کہا: اے لوگوں ! قاتلین عثمان اور ان کے مدد گاروں پر لعنت بھیجو، آپ رضی اللہ عنہا خود ان پر لعنت اور بددعا کرنے لگیں ، اہل بصرہ بھی چیخ چیخ کر قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے معاونین پر بددعا اور لعنت کرنے لگے، جب علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ کی فوج میں بددعا کی بلند آواز یں سنیں تو آپ نے دریافت کیا کہ یہ کیا ہورہا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا قاتلین عثمان پر بددعا کررہی ہیں اور لوگ بھی ان کے ساتھ بددعا کررہے ہیں ، آپ کہنے لگے میرے ساتھ تم لوگ بھی قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے مددگاروں پر بد دعا کرو اور ان پر لعنت بھیجو، اس طرح علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں بھی قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر لعنت اور بددعا کی وجہ سے ایک شور مچ گیا۔
علی رضی اللہ عنہ نے لعنت بھیجتے ہوئے کہا: اے اللہ! قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر وہ زمین میں ہوں یا پہاڑ پر لعنت فرما۔[1] اب جنگ تیز ہوچکی تھی، اس کے شعلے بھڑک رہے تھے اور دونوں فوجیں ایک دوسرے میں گتھم گتھا تھیں ، ایک دوسرے پر نیزہ بازی ہورہی تھی، جب ان کے نیزے کند ہوجاتے تو وہ تلواریں سونت لیتے، اس طرح خوب کشت وخون ہوا اور تلواریں کند ہوگئیں ۔[2] اور لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوگئے۔[3]
یہ ایسا نازک وقت تھا جب سبائیوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کا پیر کاٹنے اور خود آپ کو قتل کرنے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کردی تھی۔ بصرہ کی فوج عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے اونٹ کی حفاظت کے لیے تیزی سے آگے بڑھی اور اونٹ کے سامنے جان سپر ہوگئی، اونٹ کے سامنے معرکہ اتنا سخت، جان گسل اور گرم تھا کہ جو بھی اونٹ کی نکیل پکڑتا وہ شہید کردیا جاتا، ہودج میں ہرطرف سے اس قدر تیر چبھے ہوئے تھے جیسے سیہی کے بدن پر کانٹے۔ [4]
قبیلۂ ازد اور بنوضبہ کے کئی جان نثار مسلمان اور قریش کے نوجوان لاڈلوں نے اپنی بے مثال بہادری کے جوہر دکھا کر خود کو اللہ کے حوالے کردیا۔[5]عائشہ رضی اللہ عنہا سخت حیرانی اور مصیبت سے دوچار تھیں آپ جنگ نہیں چاہتی
[1] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍ ۲۶۸) بسند صحیح، سنن سعیدی بن منصور (۲؍ ۲۳۶) بسند صحیح۔
[2] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍ ۲۵۸) اس کی سند صحیح کے ہیں ۔
[3] الطبقات ابن سعد (۵؍ ۹۲) بسند حسن۔
[4] البدایۃ والنہایۃ (۷؍ ۲۵۳) تاریخ خلیفۃ ص (۱۹۰) بسند حسن۔
[5] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۵۴)