کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 656
اور اپنے منادی سے اعلان کرو ایا کہ اے لوگو! لڑائی سے رک جاؤ، لیکن کسی نے آپ کی بات نہ سنی، ہر ایک اپنے مقابل سے لڑ نے میں مشغول تھا، اس معرکہ میں دورن پڑے۔ پہلا رن:…جنگ کے پہلے رن میں طلحہ اورزبیر رضی اللہ عنہما بصری فوج کی قیادت کررہے تھے، پہلے رن میں یہ لڑائی فجر سے لے کر دوپہر سے کچھ پہلے تک جاری رہی،[1] جس طرح طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما اپنی فوج سے کہہ رہے تھے کہ کسی بھاگنے والے کو قتل نہ کرو اور نہ کسی زخمی پر ہاتھ اٹھاؤ اور نہ معرکہ سے کسی بھاگنے والے کا پیچھا کرو، علی رضی اللہ عنہ بھی اپنی فوج میں یہی اعلان کروا رہے تھے۔[2] زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ کو ادائیگی قرض کی وصیت کرتے ہوئے کہا: آج یا تو ظالم قتل کیا جائے گا یا مظلوم اور میں اپنے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ میں مظلوم ہی قتل کیا جاؤں گا مجھے سب سے زیادہ فکر اپنے قرض کی ہے۔[3] اسی دوران زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: آپ اپنی فوج لے کر علی کی فوج میں گھس جائیں اور علی کو قتل کردیں ، زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے سختی سے ڈانٹا اور کہا: ہرگز نہیں ، کوئی مومن قتل نہیں کیا جاسکتا، یا آپ نے یہ فرمایا کہ ایمان قتل کو قید کر رکھا ہے۔[4]گویا زبیر رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ کبھی نہ تھا کہ علی رضی اللہ عنہ یا دمِ عثمان سے بری کسی دوسرے شخص کو قتل کریں ۔ دوسرا رن:… جب لڑائی کی خبر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو پہنچی تو ازدی قبائل کے گھیرے میں آپ اپنے اونٹ پر سوار ہوکر نکلیں ، آپ کے ساتھ کعب بن سور بھی تھے ؟ جن کے ہاتھ میں آپ رضی اللہ عنہا نے مصحف دیا تھا کہ وہ اسے اوپر اٹھا لیں اور لوگوں کو اس کے حوالے سے جنگ بندی کی دعوت دیں ۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا پوری امید کے ساتھ آگے بڑھیں کہ لوگ میرا احترام کرتے ہوئے ضرور میری بات مان لیں گے اور وہ درمیان میں حائل ہوکر جنگ کے بھڑکتے شعلوں کو بجھانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔[5] کعب بن سورنے مصحف کو اوپر اٹھایا، بصرہ کی فوج کے آگے چل پڑے اور علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کو مخاطب کر کے کہا: اے لوگو! میں بصرہ کا قاضی کعب بن سور ہوں ، تمھیں اللہ کی کتاب پر عمل کرنے اور اسی کی بنیاد پر مصالحت کرنے کی دعوت دیتا ہوں ، یہ اعلان سن کر وہ سبائی جو علی رضی اللہ عنہ کی فو ج میں آگے آگے تھے ڈرے کہ کہیں کعب بن سور کی کوشش کامیاب نہ ہوجائے، اس لیے ان سب نے یکبار گی آپ پر اپنی تیر برسانا شروع کردیے، وہ اللہ کی رضا سے سرفراز ہوئے اور وفات پاگئے اس حال میں کہ مصحف ان کے ہاتھ میں تھا۔[6]
[1] تاریخ الطبری (۵؍ ۵۴۱۔ ۵۴۳) الخلفاء الراشدون؍ الخالد ص (۲۴۵)۔ [2] تاریخ الطبری (۵؍ ۵۴۱)۔ [3] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍ ۲۷۹) اطبقات (۳؍ ۱۰۸) اس کی سند صحیح ہے۔ [4] مسند احمد (۳؍ ۱۹) احمد شاکر کے نزدیک اس کی سند صحیح ہے۔ [5] مصنف عبدالرزاق (۵؍۴۵۶) زہری تک سند صحیح ہے۔ [6] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۵۳)۔