کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 655
علاوہ کچھ نہ کرسکتا تھا۔ جب کہ بدبخت وفاسق ’’قاتلین عثمان‘ ‘ امت پر جنگ مسلط کرنے اور اس میں آگ لگانے کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتے تھے اور دونوں لشکر ایک ناگہانی آزمائش میں مبتلا ہوچکے تھے۔ ان کا مقصد داؤ پر لگ چکا تھا، وہ مدافعت ہی کرتے رہے، زبیر رضی اللہ عنہ جنگ کو اپنی حالت پر چھوڑکر پیچھے ہٹ گئے، طلحہ رضی اللہ عنہ کھڑے تھے، انھیں ایک نا معلوم تیر آلگا، آپ اس محاذ آرائی کی حقیقت سے ناواقف تھے، تیر آپ کے پنڈلی کے اس زخم پر آلگا تھا جو غزوۂ احد کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زخمی ہوا تھا آپ وہاں سے لوٹے اور اسی وقت وہیں وفات پاگئے، زبیر رضی اللہ عنہ معرکہ سے پیچھے ہٹنے کے بعد دن ختم ہونے سے پہلے ’’وادی سباع‘‘میں شہید کردیے گئے، اسی طرح یہ واقعہ پیش آیا۔‘‘[1] امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’معرکۂ جمل دونوں گروہوں کے ’’نادانوں ’‘ کی فتنہ انگیزی کا نتیجہ تھا۔ ‘‘[2] مزید لکھتے ہیں : ’’فریقین نے صلح کرلی تھی، نہ علی رضی اللہ عنہ کا ارادہ جنگ کرناتھا اور نہ طلحہ رضی اللہ عنہ کا، بلکہ مقصد یہ تھا کہ وہ اتحاد کی کوئی شکل پیدا کریں گے، لیکن دونوں گروہوں کے اوباشوں نے تیر اندازی شروع کردی اور جنگ کی آگ بھڑک اٹھی۔‘‘ [3] اور ’’دول الاسلام‘‘میں لکھتے ہیں : ’’’’غوغاء‘‘ شور و غل کرنے والوں کی وجہ سے لڑائی نے گھمسان کا رخ اپنا لیا اور علی، طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں سے معاملہ نکل گیا۔‘‘[4] ۲۔معرکۂ جمل کے دو (۲) رَن: سبائیوں نے دونوں لشکروں میں جنگ بھڑکانے، ہر فریق کو ایک دوسرے کے خلاف ابھارنے اور لڑانے کی کوشش تیزتر کردی، پھر یہ معرکہ جسے معرکۂ جمل کہا جاتا ہے نہایت تیزی، گرمی اور سختی سے بھیانک انداز میں بھڑک اٹھا، اسے معرکۂ جمل اس لیے کہا جاتاہے کہ جنگ کے دوسرے رن میں عائشہ رضی اللہ عنہا بصری فوج کے درمیان اس اونٹ پر سوار تھیں جسے یعلٰی بن امیہ رضی اللہ عنہ نے مکہ میں آپ کو بطور ہدیہ دیا تھا، انھوں نے اس اونٹ کو یمن سے خریدا تھا، عائشہ رضی اللہ عنہا اسی اونٹ پر سوار ہو کر مکہ سے بصرہ آئی تھیں ، پھر دوران جنگ اسی پر سوار ہوئی تھیں ، یہ معرکہ بروز جمعہ ۱۶جماد ی الثانیہ ۳۶ھ میں بصرہ سے قریب ’’زابوقہ‘‘ میں پیش آیا تھا، علی رضی اللہ عنہ لڑائی دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے
[1] الفصل فی الملل والنحل (۴؍۱۵۷؍۱۵۸)۔ [2] العبر (۱؍ ۳۷) ۔ [3] تاریخ الإسلام (۱؍ ۱۵)۔ [4] دول الإسلام (۱؍ ۱۵)۔