کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 654
ہوا اور بالآخر اس با ت پر متفق ہوئے کہ وہ دو ٹولیوں میں بٹ جائیں اور دونوں لشکر وں میں مل ملا کر صبح ہوتے ہوتے لڑائی شروع کردیں ، جو ٹولی علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں جائے وہ لڑائی کے وقت یہ شور کرے کہ طلحہ اور زبیر نے بدعہدی کی اور جو ٹولی طلحہ اور زبیر کے لشکر میں جائے وہ یہ شور کرے کہ علی رضی اللہ عنہ نے بدعہدی کی، پھرانھوں نے اپنی سازش کے مطابق آگے کی کارروائی انجام دی، اور لڑائی چھڑگئی، دونوں فریقوں میں سے ہر ایک لڑائی کو ہٹانا چاہتا تھا اور اپنے خون کو بے کار ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا اور لڑائی کے وقت دونوں کا یہ موقف بالکل صحیح اور کار ثواب تھا۔ یہی صحیح بات ہے، اسی کی طرف ہمارا رجحان ہے اور اسی کے ہم قائل ہیں ۔‘‘[1]
قاضی عبدالجبار نے متعدد علماء کے اقوال نقل کیے ہیں کہ علی، طلحہ، زبیر اور عائشہ رضی اللہ عنہم مصالحت، جنگ بندی اور حل کی تلاش پر متفق ہوگئے تھے، لیکن علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں جو ’’دشمنان عثمان رضی اللہ عنہ ‘‘ تھے، انھیں یہ بات سخت ناگوار گزری اور ڈرے کہ کہیں آخری انجام ہمارے سر ہی نہ آئے، اس لیے انھوں جنگ کی آگ بھڑ کانے کی جوسازش کی وہ معروف بات ہے اور بالآخر جنگ ہوہی گئی۔[2]
قاضی ابو بکر العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’علی رضی اللہ عنہ بصرہ پہنچے، دونوں فریق ایک دوسرے کے قریب ہوئے تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں ، لیکن نفس پرستوں نے ان پر نگاہیں گاڑئے رکھیں ، خون ریزی میں جلدی کی، جنگ کی آگ بھڑک اٹھی اور کم عقلوں کو شور و غل لے ڈوبا، یہ سب اس لیے ہوا تاکہ کسی کو ایک دوسرے پر حجت قائم کرنے کا موقع نہ ملے، حقیقت حاصل سامنے نہ آئے اور قاتلین عثمان چھپ جائیں ، اگر ایک فرد کسی ایک لشکر کے منصوبے کو بگاڑسکتا ہے تو جہاں ہزاروں بگاڑنے والے ہوں ، اس کا کیا کہنا؟‘‘ [3]
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اس کی دلیل یہ ہے کہ لوگ (مسلمان) متفق ہوگئے، قتال نہیں کیا، محاذآرائی نہیں کی، جب رات ہوئی تو ’’قاتلین عثمان‘‘ نے جان لیا کہ زد میں ہم ہی آئیں گے اور اتحاد ہماری مخالفت پر ہوا ہے، تو انھوں نے طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کے لشکر میں مل جل کر رات گزاری اور ان میں تلواریں چلادیں ، اہل لشکر نے اپنی طرف سے دفاع کیایہاں تک کہ علی رضی اللہ عنہ کے لشکر سے مڈبھیڑ ہوگئی، انھوں نے بھی اپنی طرف سے دفاع کیا، اس طرح دونوں گروہ اسی گمان بلکہ یقین پر تھے کہ لڑائی دوسرے نے ہی شروع کی ہے، اس طرح معاملہ کافی طول پکڑ گیا اور فریقین میں سے ہر ایک نے اپنی طرف سے مدافعت کے
[1] التمہید ص (۲۳۳)
[2] تثبیت دلائل النبوۃ ؍ الہمدانی (۲۹۹)۔
[3] العواصم من القواصم ص (۱۵۶)۔