کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 653
اسی طرح دوسری جانب طلحہ رضی اللہ عنہ اپنی سواری پر سوار اور لوگوں کی بھیڑ میں یہ اعلان کر رہے تھے، اے لوگو! کیا تم لوگ سمجھائے نہیں جارہے ہو؟ لیکن حالت یہ تھی کہ سب آپ پر چڑھے جارہے تھے اور آپ کی بات نہیں سن رہے تھے، اس وقت آپ نے اس سے زیادہ کچھ نہ کہا کہ: ((اُفِّ اُفْ فِرَاشُ نَارٍ وَذَبَانُ طَمَعُہٗ))[1] ’’ستیاناس ہو، بر ا ہو آگ پر مرنے والوں اور حرص پر بھنبھنانے والی مکھیوں کا ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ آپ کا کیا خیال ہے، آگ پر جان دینے والے یہ پروانے اور حرص میں بھنبھنا نے والی یہ مکھیاں سبائیوں کے علاوہ کوئی اور ہوسکتا ہے؟ نہیں حقیقت تو یہ ہے کہ معرکہ کے آخر تک اس بات کی کوشش ہوتی رہی کہ اب بھی صلح کا کوئی راستہ نکل آئے۔
مذکورہ تفصیل سے یہ بات کھل کر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ جنگ کی آگ بھڑکانے میں عبداللہ بن سبا اور اس کے سبائی ہم نواؤں کا کتنا بڑا اثر تھا، ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہمیشہ صلح اور باہمی اتحاد ومحبت کے حریص ہوتے تھے، بے شمار شرعی نصوص اسی کی شہادت دیتے ہیں ، اور اسی پر دل بھی مطمئن ہوتا ہے۔[2]
لڑائی کی تفصیل میں جانے سے پہلے میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ معرکۂ جمل میں ’’سبائیت‘‘ کے گھناؤنے کردار پر تقریباً تمام علماء متفق ہیں خواہ اسے انھوں نے ’’مفسدین‘ ‘ کا نام دیا ہو ’’ددنوں فرق کے اوباش‘‘، ’’قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ ‘‘ یا ’’احمقوں ‘‘ کا بدبختانہ لقب دیا ہو، یا ’’غوغاء‘‘ یعنی شور وغل کرنے والے کہا ہو، یا صراحتاً سبائی لکھا ہو[3] میں بالاختصار یہاں پر بطور چند اقوال نقل کررہا ہوں ۔
عمر بن شبہ ’’أخبار البصرۃ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’جو لوگ قتل عثمان سے متہم تھے، وہ ڈرے کہ کہیں دونوں فریق ہمارے قتل پر مصالحت نہ کرلیں ، اس لیے انھوں نے جنگ کو آگ بھڑکادی، پھر جو ہوا سو ہوا۔‘‘[4]
امام طحاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’علی اور طلحہ رضی اللہ عنہم کی مرضی کے خلاف جنگ جمل پیش آگئی، اسے ’’مفسدین‘‘ نے رہروان اسلام کی مرضی کے خلاف بھڑکایا تھا۔‘‘[5]
امام باقلانی فرماتے ہیں :
’’جب صلح پر باہم رضا مندی ہوگئی اور اسی پر مجلس ختم ہوگئی، تو ’’قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ ‘‘ ڈرے کہ اب ہماری خیر نہیں ، اب ہم گرفتار کرلیے جائیں گے، اس لیے وہ سب اکٹھا ہو ئے، مشورہ کیا پھر اختلاف
[1] عبداللہ بن سباء وأثرہ فی احداث فتنۃ صدرالإسلام ص (۱۹۲-۱۹۳)۔
[2] ایضًا
[3] ایضًا، ص (۱۹۴)۔
[4] فتح الباری (۱۳؍ ۵۶)۔
[5] شرح العقیدہ الطحاویۃ ص (۵۴۶)۔