کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 652
کے ساتھ ملے جلے رہو اور ان کے ساتھ مل کر کام کرو اور جب کل دونوں فریق آپس میں ملیں تو جنگ چھیڑ دو، اور انھیں سوچنے تک کا موقع نہ دو اور جب تم علی کے ساتھ ہوگے تو انھیں کوئی شخص ایسا نظر نہ آئے گا جس کے ذریعے سے جنگ کو بند کراسکیں ، اس طرح اللہ تعالیٰ علی، طلحہ، زبیر اور ان لوگوں کو جو صلح کے خواہاں ہیں اور تمھاری منشاء کے خلاف کام کرنا چاہتے ہیں ، انھیں ایک مصیبت میں مبتلا کردے گا، اس رائے پر سب متفق ہوجاؤ اور اسی کی روشنی میں منتشر ہو کر اس طرح کارروائی کرو کہ کسی کو علم نہ۔[1]
پھر وہ سب اس بات پر متفق ہوگئے کہ انتہائی رازداری سے جنگ کی آگ لگا دی جائے، چنانچہ اندھیرے کے وقت جب کہ تاریکی کچھ زیادہ ہی تھی یہ لوگ اس طرح نکلے کہ ان کے پڑوس والے تک کو خبر نہ ہوئی۔
جس کا تعلق مضروالوں سے تھا وہ مضر والوں میں اور جس کا ربیعہ سے تھا وہ ربیعہ میں اور جس کا یمن سے وہ یمن والوں میں چلا گیا اور سب نے اپنی اپنی جگہوں پر تلواریں چلادیں ، اہل بصرہ غضب ناک ہوگئے، بلکہ تمام لوگ اپنے سامنے کسی کو بھی حملہ آور کو دیکھ کر اس سے بھڑ جاتے، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما سامنے آئے، میمنہ کوتیار کیا، اس میں قبیلہ ربیعہ کے لوگ تھے۔ عبدالرحمن بن حارث بن ہشام ان کی قیادت کررہے تھے اور میسرہ والوں کو تیار کیا، عبدالرحمن بن عتاب بن اسید اس کی قیادت کررہے تھے اور پھر خود وہ دونوں قلب میں جم گئے اور کہنے لگے: یہ کیا ہوگیا؟ لوگوں نے کہا کہ اہل کوفہ نے رات میں ہم پر حملہ کردیا، وہ دونوں کہنے لگے: ہم نے جان لیا کہ علی رضی اللہ عنہ قتل و خون ریزی، اور محرمات الہٰیہ کا تقدس پامال کرنے سے باز نہیں آئیں گے، وہ ہماری بات ہرگز نہیں سنیں گے، پھر وہ دونوں اہل بصرہ کو لے کر پیچھے ہٹ گئے اور پھر بصرہ والوں کو مقابل فوج نے دھکیل کر ان کے معسکر تک پہنچادیا۔[2]
علی رضی اللہ عنہ اور اہل کوفہ نے جب شوروہنگامہ سنا تو کہا: یہ کیا ہوا؟ معلوم رہے کہ سبائیوں نے پہلے ہی سے اپنا ایک آدمی علی رضی اللہ عنہ کے پاس لگا دیا تھا جو ان کی سازش کے مطابق آپ کو حالت بتاتا، چنانچہ جب آپ نے کہا کہ کیا ہوا ؟ تو اس آدمی نے کہا: اچانک ان (زبیر وطلحہ) کے آدمیوں نے رات میں ہم پر حملہ کردیا، تو ہم نے انھیں پیچھے کیا، تب علی رضی اللہ عنہ نے میمنہ والے قائد سے کہا: میمنہ میں آئے، اور میسرہ والے سے کہا: میسرہ میں جاؤ اور سبائیوں کی حالت یہ تھی کہ وہ جنگ کی آگ بھڑکانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرنا چاہتے تھے۔[3]
باوجود یہ کہ مذکورہ انداز میں لڑائی کا آغاز ہوچکا تھا، تاہم طرفین حقیقت حال جاننے کے لیے فکر مند تھے، علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی رائے یہ تھی کہ ان وقت تک جنگ نہ کی جائے جب تک فریق ثانی پر حجت قائم نہ کردی جائے، یہ لوگ نہ تو بھاگنے والے کو قتل کررہے تھے اور نہ کسی زخمی پر ہاتھ اٹھار ہے تھے، لیکن سبائیت تو کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہتی تھی۔[4]
[1] تاریخ الطبری (۵؍۵۲۷)۔
[2] تاریخ الطبری (۵؍۵۴۱)۔
[3] تاریخ الطبری (۵؍۵۴۱)۔
[4] تاریخ خلیفۃ بن خیاط ص (۱۸۲)۔